کیا نئے پاکستان کی ابتداء ہوجائے گی؟

217

zr_M-Anwerپاناما اسکینڈل کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اگرچہ فیصلہ ابھی نہیں آیا مگر اطلاعات کے مطابق اس مقدمے میں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ملوث ہیں اور انہیں اپنے خاندان سمیت اپنے آپ کو ’’پارسا‘‘ ظاہر کرنا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے رشتے داروں پر لگے الزامات اگر عدالت نے تسلیم نہیں کیے یا عدالت میں درست ثابت نہیں ہوئے تو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) ہی نہیں جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے اداروں کی ساکھ پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہوںگے۔ چوںکہ عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوچکی ہے اس لیے اس بات زیادہ گفتگو کرنا مناسب نہیں۔
پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ملک کے اداروں کو لڑانے کی سازش کی باتیں بھی کی جاتی رہیں۔ حالاںکہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی مملکت کے اداروں کو لڑانے کے الزامات سے کسی طور پر نہیں بچ سکتے۔ چند روز قبل پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کو منسوخ کرنے کے لیے ’’نیب آرڈننس منسوخی‘‘ بل اسمبلی سے منظور کرایا۔ عام تاثر یہی ہے کہ یہ سندھ کو وفاق سے لڑانے کا بل ہے۔ اگرچہ اس بل پر گورنر سندھ نے دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے اسی وجہ سے اس پر عمل درآمد بھی نہیں ہوسکا۔ اسی طرح وفاقی حکمرانوں کی جانب سے عدالتی حکم کے تحت بنائی گئی جے آئی ٹی پر کھل کر اعتراض بھی دراصل اداروں کے حساس معاملات پر اعترضات کے مترادف ہے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہورہا ہے کہ اب تک ہماری سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوری اصول اس طرح رائج نہیں ہیں جن کی یہ جماعتیں اکثر باتیں اور دعوے کیا کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز تو اوپر کی سطح پر جمہوری نظام سے مبرا ہیں۔ دونوں جماعتیں کے سربراہان کا تعلق کسی طور پر جمہوری طرز عمل سے نہیں ہے بلکہ وہ ایک مورثی سیاست یا پھر آمرانہ طرز عمل تک محدود ہیں۔ ان جماعتوں میں جمہوریت صرف نچلی سطح پر دکھاوے کے لیے نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں میں شامل ہونے والے افراد کو ان کی سیاسی حیثیت سے زیادہ ذاتی حیثیت میں جانچا جاتا ہے۔ بلکہ اکثر و بیش تر کسی کو شامل کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے صرف لیڈروں کی خواہشات کو ہی سامنے رکھا جانے کا سلسلہ چل رہا ہے۔
چوںکہ سیاسی جماعتوں میں ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس لیے ایسے افراد کا ان جماعتوں پر باآسانی غلبہ ہوجاتا ہے جو مختلف اقسام کے اثر ورسوخ کے حوالے سے اہم ہوتے ہیں۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی میں تحریک انصاف کی ناز بلوچ نے شمولیت اختیار کرلی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کراچی سے تعلق رکھنے والی اہم خاتون رہنما ناز بلوچ نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔ ناز بلوچ نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گھر لوٹ آئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی بیٹی ہونے کے ناطے عمران خان کا ساتھ دیا تھا، تحریک انصاف کے لیے میری قربانیاں سب کے سامنے ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ اچھا وقت گزرا، اس لیے کیچڑ اچھالنا نہیں چاہتی۔ ناز بلوچ پیپلز پارٹی سے بچپن سے رغبت رکھتی ہوں گی کیوںکہ ان کے والد عبداللہ بلوچ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کے نظریاتی ساتھی تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے 2011 میں تحریک انصاف جوائن کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو کی پارٹی انہیں آصف زرداری کی رہنمائی میں نظر نہیں آرہی تھی۔
انہوں نے اپنے والد عبداللہ بلوچ اور ذوالفقار علی بھٹو کی کئی سالہ سیاسی رفاقت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلاول زرداری نوجوانوں کی صحیح ترجمانی کررہے ہیں، وہ اپنی والدہ کے قتل کے باوجود ملک واپس آئے اور پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ ناز بلوچ ایک پڑھی لکھی سیاسی کارکن ہیں وہ ایک ایسے وقت میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئی ہیں جب پارٹی کی قیادت بلاول کے پاس ہے اور آصف زرداری ریٹائرمنٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ناز بلوچ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے موقع پر آصف زرداری کا ذکر اس طرح نہیں کیا جس طرح انہیں بلاول کے لیے تعریفی کلمات ادا کیے۔
تحریک انصاف کو ناز بلوچ کی علیحدگی سے اس لیے دھچکا لگا ہوگا کہ ان کا پیپلز پارٹی کو میں شمولیت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب تحریک انصاف سیاسی طور پر اپنے آپ کو طاقت ور محسوس کرنے لگی ہے۔ ناز بلوچ کے پیپلز پارٹی شمولیت کے حوالے سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے فردوس عاشق اعوان کا تحریک انصاف میں شامل ہونے کا بدلا لیا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ ناز بلوچ کا اپنا ہے اس سے پیپلز پارٹی کے کم از کم شریک چیئرمین کا کوئی تعلق نہیں ہوگا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی ساکھ کا کوئی تعلق ہوگا۔ ناز بلوچ پرانی لیاری کی رہنے والی ہیں وہ سینٹ پیٹرکس کی طالبہ رہی ہیں وہ لیاری کے مسائل اور لیاری کے لوگوں کو بھی اچھی طرح جانتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے آئندہ انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر جہاں اپنے والد کی پارٹی کو اپنایا وہیں پر اس بات کا بھی اظہار کیا کہ کراچی خصوصاً لیاری کے لوگوں کا پیپلز پارٹی اور کراچی کی جماعتوں کے سوا کسی جماعت میں گزارا نہیں۔
ناز کا پیپلز پارٹی میں شامل ہونا تحریک انصاف کے لیے اس سے بڑا دھچکا ہے جتنی خوشی پی پی پی کو ہوئی ہوگی۔ پیپلز پارٹی میں جلد ہی ان تمام لوگوں کے دوبارہ شامل ہونے کے امکانات ہیں جو اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن یہ تمام لوگ آصف زرداری سے زیادہ بلاول کی محبت اور سیاسی مستقبل کے لیے ان کی جدوجہد کو دیکھ کر پارٹی میں واپس آرہے ہیں۔ آصف علی زرداری کو اگر پیپلز پارٹی اور جیالوں سے محبت ہے تو انہیں چاہیے کہ پارٹی کو اپنی گرفت سے مکمل آزاد کردیں اور اس مقصد کے لیے خود بھی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ ایسی صورت میں بے نظیر بھٹو کو چاہنے والے ان کے بیٹے کی پارٹی کو اہمیت دینے لگیں گے۔
پاناما اسکینڈل کے متوقع فیصلے کے بعد ویسے بھی ایسے سیاست دانوں کے لیے جگہ تنگ ہوجائے گی جن پر کرپشن اور ملک کے خزانے کو نقصان پہنچانے کے غیر معمولی الزامات ہیں۔ قوم کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اس بار تبدیلی عسکری قوت کی مداخلت کے بغیر اور جمہوری نظام کے تحت ہی آئے گی۔ اگرچہ فی الحال ایسا کچھ ناممکن نظر آرہا ہے کیوںکہ نواز شریف مستعفی نہ ہونے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن بہت امکان ہے کہ عدالت نواز شریف کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیدگی اور انہیں ہدایت کرے گی کہ وہ فوری مستعفی ہوجائیں۔ عدالت آئین کے تحت قومی اسمبلی کے اسپیکر کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھال کر فوری نیا قائد ایوان کے انتخاب کا حکم دے سکتی ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوگا کہ جمہوریت کا تسلسل چلتا رہے اور نئے انتخابات اپنے شیڈول کے تحت آئندہ سال 2018میں ہوسکیں۔ اگرچہ تحریک انصاف نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے لیکن امکان ہے کہ عدلت عظمیٰ کا فیصلہ آتے ہی جمہوریت کے سلسلے کے لیے تحریک انصاف اپنے فیصلے پر نظر ثانی کردے۔ ایسی صورت میں نئے پاکستان کی ابتداء بھی ہوجائے گی۔