چین اور پاکستان کے خلاف بحری محاذ

316

Jilani-1ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پاناما لیکس کے مقدمہ میں ایسا غرق ہے کہ اسے کچھ خبر نہیں کہ اس کے ساحلوں پر کیا خطرات سر اُٹھا رہے ہیں۔ خلیج بنگال سے لے کر بحر ہند اور بحیرہ عرب میں مالا بار مشقوں کے نام سے ہندوستان ، امریکا اور جاپان کی بحری فوجوں کی 7 جولائی سے 17 جولائی تک 10روزہ بحری مشقیں ہوئی ہیں۔ ان مشقوں میں 95طیاروں، 16بحری جنگی جہازوں اور 2 آب دوزوں نے حصہ لیا۔ ان میں امریکا کا دنیا میں سب سے بڑا طیارہ بردار جہاز۔ ایس ایس نمٹز اور گائیڈدمیزائل مزایل کروز جہاز، پرنسٹن شامل تھا۔ جاپان کا ہیلی کاپٹر بردار جہاز’’ ازومو‘‘ اور ہندوستان کا جہاز ’’وکرم ادتیا‘‘بھی ان مشقوں میں شریک تھا۔
گو یہ کہا گیا کہ ان مشقوں کا مقصد خلیج بنگال ۔ بحر ہند اور بحیرہ عرب میں جہاز رانی کا تحفظ مضبوط بنانا تھا لیکن اس کا اصل مقصد اس علاقے میں چین کی بحری قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اس کے اثر کو روکنے کے لیے بحری محاذ قائم کرنا اور اس کی آڑ میں پاکستان کے سمندر پر کڑا بحری محاصرہ قائم کرنا ہے، اورخاص طور پر گوادر کی بندر گاہ میں جہاز رانی پر کڑی نگاہ رکھنا ہے۔ 1992سے اس علاقے میں امریکا اور ہندوستان نے مشترکہ بحری مشقو ں کا سلسلہ شروع کیاتھا لیکن اس بار مالا بار مشقوں میں امریکا اور ہندوستان کے ساتھ جاپان کی شمولیت کے نتیجے میں ایک نیا وسیع تر بحری محاذوجود میں آیا ہے۔
مالا بار بحری مشقیں اس وقت بے حد اہمیت کی حامل تھیں، جب کہ بھوٹان اور سکم کے نکڑ پرمتنازع ’’دوکلام ‘‘ میں چین اور ہندوستان کی فوجوں کے درمیان سخت کشیدہ صورت حال ہے۔ اس دوران چین نے ہندوستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ہمالہ میں بھوٹان اور سکم کے درمیان’’ دوکلام‘‘سے اپنی فوجیں واپس بلا لے ورنہ صورت حال کے بگڑنے کا خطرہ ہے۔ ادھر جنوبی چین کے سمندر میں بھی امریکی بحریہ کی اشتعال انگیز کارروائیاں جاری ہیں۔
امریکی اسٹرائیک گروپ 11 کے کمانڈر۔ ریر ایڈمرل ولیم بائرن نے صاف صاف کہا ہے کہ مالا بار مشقوں کا زیادہ تر زور آب دوزوں کی کھوج لگانے کی اہلیت کو بہتر بنانے پر مرکوز تھااور تمام دنیا کی بحری فوجوں پر یہ واضح کرنا تھا کہ اس علاقے میں ہماری بحری قوت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بحری مشقوں کے دوران ایک امریکی کمانڈرنے کہا تھا کہ ان مشقوں کی بدولت چین پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکا، ہندوستان اور جاپان ایک دوسرے ساتھ متحد کھڑے ہیں۔
بلا شبہ مالا بار بحری مشقیں ، چین کے خلاف، ہندوستان اور امریکا کے بڑھتے ہوئے فوجی اتحاد اور اشتراک کا مظہر ہیں اور اس بات کی نمایاں علامت ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت چین کے خلاف امریکا کے فوجی اتحاد میں بھر پور طور پر شامل ہے۔ 26جون کو جب نریندر مودی نے پہلی بار وائٹ ہائوس میں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو دونوں رہنمائوں نے ہندوستان اور امریکا کے درمیان ’’گلوبل اسٹرٹیجک پارٹنرشپ ‘‘ کو مضبوط بنانے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل نریندر مودی نے بر سر اقتدار آتے ہی امریکا کے دبائو کے تحت جاپان کو مستقل طور پر مالابار بحری اتحاد میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ دسمبر میں ہندوستان نے ٹوکیو سربراہ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور سویلین جوہری سودے پر دستخط کیے تھے جسے نریندر مودی نے تاریخی قرار دیا تھا۔
یہ امر بے حد اہم ہے کہ گو، اسرائیل کی بحریہ مالا بار بحری مشقوں میں شامل نہیں ہوئی تھی لیکن بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کے مبصر امریکی طیارہ بردار جہاز نمٹز پر موجود تھے۔ پچھلے دنوں، نریندر مودی کے اسرائیل کے دورہ میں، ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان بحری فوجوں میں تعاون پر تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی اور مودی کے تل ابیب کے دورہ سے پہلے ہندوستان کی بحریہ کے سربراہ نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگلے سال مالابار مشقوں میں اسرائیل کی بحریہ بھر پور طور سے شامل ہوگی۔
ہندوستان، امریکا، جاپان اور اسرائیل کا بحری محاذ بلا شبہ پاکستان کے لیے شدید تشویش کا باعث ہوگا۔ ہندوستان کی بحریہ 68ہزار فوجیوںکے ساتھ ایک طیارہ بردار جہاز، ایک بحری ٹرانسپورٹ ڈاک،8لینڈنگ شپ ٹینکوں،11تباہ کن جہازوں،14 فریگیٹس، جوہری توانائی سے چلنے والی ایک آب دوز، ایک بیلسٹک میزائل آب دوز، 13حملہ کرنے والے آب دوزوں، بارودی سرنگوں کا صفایا کرنے والے 4 جہازوں، 29 گشتی جہازوں پر مشتمل ہے۔ ہندوستان کی بحریہ کے فضائی بازو میں 21 اسکوڈرن، 8ہیلی کاپٹر اسکوڈرن اور ڈرون طیاروں کے 3اسکوڈرن شامل ہیں۔
ہندوستان کی اس بحری قوت کے ساتھ امریکا اور جاپان کی بحری فوجوں کے اتحاد کی بدولت، بلا شبہ خلیج بنگال، بحر ہند اور بحیرہ عرب میں ایک نہایت طاقت ور، بحری محاذ قائم ہوگیا ہے، جو نہ صرف چین کے لیے بلکہ پاکستان کے لیے بھی سنگین خطرہ کا باعث ہے۔ اس بحری اتحاد میں اسرائیل کی شمولیت اس علاقے میں شدید تباہ کن ثابت ہوگی اور طاقت کے توازن کو برباد کر کے رکھ دے گی۔