تو پھر فرق کیا پڑے گا

284

baba-alifاصل معاملے پر بات کرنے سے پہلے دو معمولی واقعات:
پہلا واقعہ پنجاب اسمبلی کی رکن بیگم شاہ جہاں کا قصہ ہے۔ اصل میں تو یہ دو کمسن بچوں اختر اور عطیہ کا قصہ ہے۔ اس دکھ ساگر میں ان جیسے ہزاروں لاکھوں بچے اتنے ہی گھروں، گلیوں اور سڑکوں میں آنسو بھری آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے زندگی بتا رہے ہیں۔ وہ دنیا جہاں وقت منجمد پڑا ہے۔ سو، ان سے کیا بات کا آغاز کریں۔ ان کو نم آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن بات تو کسی بڑے آدمی سے شروع کرنی چاہیے۔ ہوا یہ کہ پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے فرائض انجام دینے والی ’’محترمہ‘‘ بیگم شاہ جہاں نے ان دو بچوں کو پچاس ہزار روپے کے عوض خریدا۔ بچوں کی ماں رقیہ نے پیسے لے کر خاوند سے طلاق حاصل کر دوسری شادی کرلی۔ بچوں کا والد اسلم بچوں سے ملنے آیا تو اسے ملنے نہیں دیا گیا اور کہا گیا کہ پیسے دو اور بچوں کو لے جائو۔ اس دوران بچوں پر مستقل ظلم کیا جاتا رہا۔ چند روز قبل بیگم شاہ جہاں کی بیٹی فوزیہ نے اخترکو مفلسی اور مجبوری سے نجات دلانے کے لیے لوہے کی سلاخ سے تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ کم سن عطیہ کو بھی زدو کوب کرکے زخمی کردیا گیا۔ واقعے کے بعد پولیس دیر سے پہنچی تاکہ بیگم شاہ جہاں اور ان کی بیٹی آسانی سے فرار ہوسکیں۔ انہیں عدالت تک پہنچنے کا پورا موقع دیا گیا۔ اس بہیمانہ اور انسانیت سوز ظلم پر عدالت بھی ’’ازرہ انصاف پروری‘‘ فوراً ضمانت منظور کرلی۔ معصوم اختر کو اس کے گائوں میں دفن کردیا گیا۔ زمین کا بوجھ زمین کی کوکھ میں رکھ دیا گیا اور قصہ ختم۔
دوسرا واقعہ ایبٹ آباد کے ایک ’’محترم‘‘ زمیندار کا ہے جس کے کھیت میں ایک گدھا آگیا تھا۔ گدھے کے پیچھے پیچھے ایک بچہ بھی گدھے کو واپس لے جانے کے لیے کھیت میں آگیا۔ زمیندار صاحب کا موڈ اس وقت تیز وتند اور ظلم پر مائل تھا۔ انہوں نے بچے کو مارا پیٹا کچھ نہیں بس گدھے کے ساتھ باندھ کر گدھے کو دوڑا دیا۔ بچے کی چیخیں اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کا منظر، اف میرے خدا کس طرح تفصیل رقم کی جائے۔ ہمارا عدل وانصاف کا نظام یہاں بھی ظالم کے بروئے کار ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ زمیندار کو بھی گدھے کے ساتھ باندھ کر اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے مگر یہاں لواحقین پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ زمیندار کے ساتھ صلح کرلیں۔
مجرم ہو بارسوخ تو قانون کچھ نہیں
کس نے یہ درج کردیا ایوان عدل پہ
اس حقیقت کا غماز ایک تیسرا واقعہ بھی ہے: وزیراعظم میاں نوازشریف کا۔ دس جولائی کو جن کے بارے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی جس کے بعد وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے وکلا پیر سترہ جولائی سے اس رپورٹ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کررہے ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچے اپنے اثاثوں کی منی ٹریل ثابت نہیں کرسکے۔ ان کا طرز زندگی ان کے اعلان کردہ اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ شریف خاندان کی تیز رفتار کاروباری ترقی کے آگے ہمیشہ بڑے بڑے سوالیہ نشان رہے ہیں۔ برطانوی صحافی خاتون ایما ڈکسن کی مشہور کتاب ’’بریکنگ کرفیو‘‘ میں باقاعدہ چارٹ موجود تھے کہ جب میاں صاحب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کا کاروبارکس رفتار سے ترقی کرتا ہے اور جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیںتو کاروبار کتنا متاثر ہوتا ہے۔ شریف خاندان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ حکومتی طاقت کو اپنے کا روبار میں اضافے اور وسعت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسے برا تصور نہیں کرتے۔ وہ حکومتی سودوں میں کک بیکس یا کمیشن وصول کرنے سے اجتناب کرتے ہیں جو سابق صدر آصف علی زرداری کا طریقہ ہے۔
عدالت عظمیٰ میں پیر سے جو کاروائی شروع ہوئی ہے اس کے بعد سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے کیا عدالت عظمیٰ وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دے دی گی۔ اور اگر نااہل قرار دے دی گی تو کیا اس کے بعد کسی امین اور دیانت دارحکمران کے آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس سوال کو اس طرح کیا تھا۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں جب انہیں اپنا جانا نظر آرہا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ’’دیکھنا میرے بعد کوئی فرشتہ آتا ہے یا راسپوتین۔‘‘ 2012 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے کر اقتدار سے بے دخل کردیا گیا تھا لیکن حکومت پیپلز پارٹی کی ہی برقرار رہی جس نے راجا پرویز اشرف کو نیا وزیر اعظم بنا دیا جن کے خلاف پانی اور بجلی کے وزیر کی حیثیت سے کی جانے والی کرپشن کے مقدمات پہلے ہی نیب میں زیر سماعت تھے۔ اس مرتبہ بھی اگر وزیراعظم نواز شریف کو گھر بھیج دیا گیا تو حکمران جماعت کسی دوسرے کرپٹ کو حکمران نامزد کردے گی اور اپنی بقیہ مدت اقتدار پوری کرے گی۔ اس تمام مشق سے ملک وقوم کو کیا حاصل ہوگا۔ انسانوں کا بنایا ہوا یہ جمہوری نظام کرپٹ حکمرانوں کو اتنے قانونی مواقع فراہم کرتا ہے کہ نہ ان کے مالی اثاثوں میں کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ان کی مدت اقتدار میں۔ صرف چہرے تبدیل ہوتے ہیں۔ وہی کرپٹ حکمران نئے چہرے بدل کر واپس اقتدار کے ایوانوں میں آجاتے ہیں۔ برسوں عدالتی کاروائی اور تحقیقات کے بعد بھی کرپٹ حکمران کے پاس بچنے کے ان گنت راستے ہوتے ہیں۔
کرپشن کا مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ہر جمہوری معاشرے میں موجود اور موضوع گفتگو ہے۔ ہر ملک میں اس نظام کو کرپٹ افراد سے پا ک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کرپشن محض کرپٹ افراد تک محدود ہے جنہیں اس سسٹم سے باہر نکال کر مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن اس نظام کا لازمی جزو ہے۔ یہ نظام خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ اس نظام کی بنیاد الیکشن پر ہے۔ الیکشن لڑنے کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری اور کارکنوں کی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچنا ممکن ہے۔ امریکا میں بھی حکومت تک پہنچنے کے لیے سیاست دانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور طاقتور لابیوں سے پیسہ، سیاسی مدد اور پشت پناہی درکار ہوتی ہے۔ یوں معاشرے کے کرپٹ ترین لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں جہاں پہنچ کر وہ اپنے حق میں قانون سازی کرتے ہیں اور ایسے حربے اختیار کرتے ہیں کہ لگائی ہوئی رقم کئی گنا ہوکر واپس آسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام دنیا بھر میں اچھی حکمرانی دینے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اس نظام کو اصلاح کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ اگر آپ اسلام کی طرف نہیں آتے تو چہرے تبدیل کرتے رہیے۔ آج نواز شریف ہیں کل عمران خان آجائیں‘ فرق کیا پڑے گا؟ کچھ نہیں۔ ایک اور غیر مستحکم حکومت، کرپٹ افراد کا ایک اور ٹولہ۔