وکلا کی ہڑتال ، دبائو کس پر

182

Edarti LOHوزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے لیے دبائو ڈالنے کی خاطر پاکستان بھر کے وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا اور پاکستان بار کونسل کے ارکان سمیت ممتاز وکلاء نے عدالتوں کا رُخ نہیں کیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاناما اور جے آئی ٹی کے معاملے میں عوام کا کیا قصور ہے ۔ ملک بھر میں کتنے ہی موکل اپنے مقدمات کی سماعت سے محروم رہے اور وکلاء کا دبائو نواز شریف پر نہیں موکلوں پر پڑا ہے ۔ وکیل تو اپنی فیس کھری کر لیں گے اور مقدمات کی تاریخیں آگے بڑھ جائیں گی لیکن جتنے بھی لوگوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ ایک ایک دن گن رہے ہوں گے ان پر تو یہ ہڑتال بھاری ہو گی ۔ پاکستان بار کونسل اور دیگر معروف وکلاء کی طرف سے بیانات کے ذریعے دبائو تو ڈالا ہی جا رہا ہے پھر موکلوں پر دبائو ڈالنے کی کیا ضرورت تھی ۔ وکلاء بھی قانون کے نمائندے ہیں اور انصاف کے حصول میں عدالتوں کی مدد کرتے ہیں ۔ پاناما پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے ججوں کے سامنے ہے چنانچہ ان کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا ۔ مقدمہ چلنے تک وکلاء اپنے دلائل پیش کرتے ہیں اور فیصلہ آنے پر اگلا قدم اُٹھاتے ہیں لیکن یہاںکسی فیصلے سے پہلے ہی وکلاء نے اپنا فیصلہ دے دیا ۔ دیکھا جائے تو اصل دبائو عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں پر ڈالا گیا ہے کہ فیصلہ ان کی آرزو، تمنا اور خواہش کے مطابق نہ ہوا تو وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کرتے رہیں گے ۔ گزشتہ منگل کو لاہور میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین احسن بھُون نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے مطالبہ کیا کہ مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور وزیر اعظم ود یگر کو نا اہل قرار دیا جائے جو جے آئی ٹی رپورٹ میں بد عنوانی کے مرتکب پائے گئے ہیں ۔ احسن بھُون کے ساتھ پنجاب بار کونسل کے وکلاء بھی پریس کانفرنس میں شامل ہو گئے ۔ انہوں نے اسحق ڈار کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ۔ یہ محض مطالبہ نہیں بلکہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اس کوکیا فیصلہ کرنا ہے ۔ کیا فیصلے سے پہلے فیصلہ دینا عدالت کا وقار مجروح کرنے کے مترادف نہیں ہے لیکن کہا یہ گیا ہے کہ حکمران پارٹی کو عدالت کا وقار مجروح نہیں کرنے دیں گے ۔ وکلاء کی بنیادی ذمے داری اپنے موکلوں کا مقدمہ لڑنے اور انصاف کے حصول میں تعاون کرنا ہے نا کہ ہڑتالیں کرنا ۔