میراث کے مسائل

2393

سید عبدالوہاب شاہ
میراث سے متعلق احکام وفات کے بعد کے ہیں، زندگی میں اگر کوئی شخص بحالت صحت اولاد میں مال و جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی کو مساوی طور پر حصہ دیا جائے اور اگر اولاد میں سے کسی کو اس کے تقویٰ یا دینداری یا حاجت مندی یا والدین کی خدمت گزاری کی وجہ سے نسبتاً زیادہ حصہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں اور اگر اولاد بے دین فاسق و فاجر ہو اور مال دینے کی صورت میں بھی اس کی اصلاح کی امید نہ ہو تو انہیں صرف اتنا مال کہ جس سے وہ زندہ رہ سکیں دینے کے بعد بقیہ مال امور خیر میں خرچ کرنا افضل ہے۔ (الدرمختار) خلاصہ یہ ہے کہ زندگی میں بحالت صحت تو اختیار ہے لیکن مورث کے مرنے کے بعد کسی وارث کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔
عاق کرنا
چونکہ مرنے کے بعد وارث کا استحقاق خود ثابت ہو جاتا ہے اس لیے اگر کسی مورث نے عاق نامہ بھی تحریر کر دیا کہ میں اپنے فلاں وارث سے (بیٹا ہو یا بیٹی یا کوئی اور وارث) فلاں وجہ سے ناراض ہوں وہ میرے مال اور ترکے سے محروم رہے گا۔ میں اس کو عاق کرتا ہوں تب بھی وہ شرعاً محروم نہیں ہوگا اور اس کا حصہ مقرر اس کو ملے گا کیونکہ میراث کی تقسیم نفع پہنچانے یا خدمت گزاری کی بنیاد پر نہیں۔ لہٰذا کسی بھی وارث کو محروم کرنا حرام ہے ایسی تحریر کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔ البتہ نافرمان بیٹے یا کسی دوسرے فاسق و فاجر وارث کو محروم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ شخص اپنی صحت وتندرستی کے زمانے میں کل مال و متاع دوسرے ورثاء میں شرعی طور پر تقسیم کر کے اپنی ملکیت سے خارج کر دے تو اس وقت جب کچھ ترکہ ہی باقی نہیں رہے گا تو نہ میراث جاری ہو گی نہ کسی کو حصہ ملے گا۔ (امداد الفتاوی)
ترکہ کیا ہے؟
وہ تمام جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ جو میت کو ورثے میں ملی ہو یا خود کمائی ہو بشمول تمام قابل وصولی قرضہ جات ترکہ کہلاتی ہے۔ جو چیز میت کی ملک میں نہ ہو بلکہ قبضے میں ہو وہ ترکہ نہیں ہے، مثلاً میت کے پاس کسی نے کوئی امانت رکھی تھی تو وہ ترکے میں شامل نہ ہوگی بلکہ جس نے رکھوائی تھی اس کو واپس کی جائے گی۔
وارث کون؟
ہر خونی رشتے دار اور خاوند بیوی جو میت کی وفات کے وقت زندہ ہو نیز حمل کا بچہ سب وارث کہلاتے ہیں۔
قابل تقسیم ترکہ
سب سے پہلے میت کے دفن تک ہونے والے ضروری اخراجات اس کے ترکے سے نکالے جاسکتے ہیں، مثلاً کفن، قبر کی کھدائی کی اجرت، اگر ضرورت پڑے تو قبر کے لیے جگہ خریدنا وغیرہ یہ سب امور تجہیز میں داخل ہیں یہ اخراجات ترکے سے نکالے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ غیر شرعی امور مثلاً امام کے لیے مصلیٰ خریدنا وغیرہ یہ ترکے سے نہیں نکالے جائیں گے۔ تجہیز کے اخراجات میں نہ تو فضول خرچی کی جائے اور نہ بخل۔ اس کے بعد باقی مال سے میت کے ذمے واجب الادا قرضہ جات ادا کیے جائیں گے۔ بیوی کا مہر خاوند کے ذمے قرض ہے، اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تھا تو ترکے سے پہلے اسے ادا کیا جائے گا۔
اس کے بعد باقی مال سے جائز وصیت ایک تہائی (1/3) تک ادا کی جائے گی۔ یہ تین کام کر نے کے بعد جو باقی بچ جائے وہ قابل تقسیم ترکہ ہے۔ اب شرعی ضابطے کے مطابق جس وارث کا (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) جتنا حصہ بنتا ہو اسے دے دیا جائے اور جو وارث شرعی ضابطے کے مطابق محروم ہوتا ہے اس کو محروم کر دیا جائے۔
رخصتی سے پہلے بھی وراثت ملے گی
اگر کسی لڑکی اور لڑکے کا نکاح ہوگیا لیکن ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ لڑکا (یعنی خاوند) فوت ہوگیا تو تب بھی وہ لڑکی اس لڑکے کے مال سے بطور بیوی وراثت کی حق دار ہو گی۔
منہ بولا بیٹا یا بیٹی
کسی مرد یا عورت نے کسی لڑکے یا لڑکی کو منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنا لیا تو وہ لڑکا یا لڑکی اس مرد یا عورت کے ترکے سے حق وراثت نہ پائے گا۔
نابالغ وارثوں کا حق وراثت
اگر میت کے وارثوں میں بعض نابالغ بچے ہوں اور وہ اپنے حصے میں سے کچھ صدقہ، خیرات یا ہدیہ کرنے کی اجازت دیں تو ان کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں۔ تقسیم جائیداد کے بعد صرف بالغ وارثین اپنے اپنے حصے سے خیرات وغیرہ کر سکتے ہیں اس سے پہلے نہیں۔
مسئلہ تخارج
اگر کوئی وارث دوسرے وارثوں کی رضامندی سے اس شرط پر اپنا حق وراثت چھوڑ دے کہ اس کو کوئی خاص چیز وراثت میں سے دے دی جائے تو یہ شرعاً جائز ہے۔ مثلاً ایک مکان یا ایک کار لے لی اور باقی ترکے میں سے اپنا حصہ چھوڑ دیا۔ یا خاوند نے اپنی مرنے والی بیوی کا حق مہر نہ دیا تھا تو اس نے اس کے بدلے اپنا حصہ وراثت جو بیوی کے ترکے سے اس کو ملتا تھا چھوڑ دیا۔
پینشن کی رقم کی تقسیم
میت کے وظیفے یا پینشن کے بقایا جات جو اس کی موت کے بعد وصول ہوں ان کی بھی دوسرے ترکے کی طرح تقسیم ہوگی لیکن اگر موت کے بعد پینشن جاری رہی جس کو فیملی پینشن کہتے ہیں تو سرکاری کاغذات میں جس کے نام پینشن درج ہو گی صرف وہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا۔
میت کی فوت شدہ نماز و روز ے کا فدیہ
جس شخص کے ذمے نماز یا روزے یا زکوۃ یا حج واجب ہو اور ا س پر موت کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو واجب ہے کہ وہ اپنے وارثوں کو وصیت کر جائے کہ میری طرف سے نماز، روزہ وغیرہ کا فدیہ ادا کر دیں اور زکوۃ وحج ادا کر دیں لیکن یہ وصیت جائیداد (ترکہ) کے ایک تہائی سے زیادہ وارثوں کی رضا مندی کے بغیر عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ ایک نماز یا ایک روزے کا فدیہ احتیاطاً دو کلو گرام گندم یا اس کی قیمت ہے۔ جو روزے مرض الموت میں قضا ہوئے ہوں ان کی قضا اور فدیہ واجب نہیں۔ جو شخص نماز روزے حج وغیرہ کے ادا کرنے کی وصیت کر گیا ہو اور اگر اس نے مال بھی چھوڑا ہے تو اس کی وصیت (ترکے کے ایک تہائی تک) کا پورا کرنا اس کے وارثوں پر واجب ہے اگر مال نہیں چھوڑا تو وارثوں کی مرضی پر موقوف ہے۔