خواتین اور کسب معاش

564

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
شریعت نے خاندانی نظام کے بقا، بچوں کی بہتر نگہداشت اور خواتین کی فطری صلاحیت کی رعایت کرتے ہوئے، ذمے داریوں کی اس طرح تقسیم کی ہے کہ کسبِ معاش کی ذمہ داری (جس کے لیے محنت، مزدوری، دوڑ دھوپ کی ضرورت پیش آتی ہے) مرد پر رکھی گئی ہے اور اْمور خانہ داری خواتین سے متعلق رکھے گئے ہیں، اس کی یہ تعبیر درست نہیں ہے کہ عورت گھر کی خادمہ ہے؛ بلکہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ عورت گھر کی ’’مالکہ‘‘ ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت گھر کی ذمے دار اور اس کی انچارج ہے، عورت کو (چاہے وہ کسبِ معاش کی صلاحیت رکھتی ہی ہو) کسب معاش پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خواتین کے لیے بہت بڑی رحمت ہے، آج مغربی دنیا میں خواتین سے دوہری خدمت لی جاتی ہے، ان کو بچوں کی پرورش اور اْمور خانہ داری کی بھی تکمیل کرنی پڑتی ہے اور ملازمت کر کے پیسے بھی کمانے پڑتے ہیں اور معاشی ذمے داریوں میں شریک ہونا پڑتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تقسیم کار میں خاندانی نظام کا بقا ہے، انسانی فطرت یہ ہے کہ باہمی احتیاج اور ضرورت مندی سے تعلقات استوار رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت باقی رہتی ہے، مزدور سرمایہ دار کو اس لیے برداشت کرتا ہے کہ اس کی روزی روٹی سرمایہ دار سے متعلق ہے، سرمایہ دار مزدور سے اپنا تعلق اس لیے موافق رکھنا چاہتا ہے کہ جب تک مزدور کے ہاتھ نہیں لگیں، محض سرمایے سے کوئی چیز نہیں بن سکتی، یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے، ازدواجی زندگی کا مسئلہ بھی اسی طرح ہے، شوہر اپنے ذہن و قلبی سکون نیز گھر اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت کے لیے بیوی کا محتاج ہے اور بیوی اپنی ضروریاتِ زندگی اور تحفظ کے لیے شوہر کی ضرورت مند ہے، یہ ایک دوسرے کی ضرورت باہم تعلقات کی استواری کا سبب بنتی ہے اور انسان ایک دوسرے کو برداشت کرتا ہے، اگر شوہر عیاشی کا راستہ اختیار کر لے اور اس کا دل بال بچوں کی محبت سے خالی ہو جائے تو بیوی سے بے اعتنائی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی کمزوریوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح عورت اپنی ضروریاتِ زندگی کے بارے میں شوہر سے بے نیاز ہو جائے تو ناگواریوں کے باوجود اس سے نباہ کی صلاحیت نہیں رہتی، غرض کہ گھر اور باہر کی ذمے داریوں کی تقسیم شوہر و بیوی کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں اور ہلکے پھلکے ناخوشگوار واقعات کو برداشت کر لیا کریں۔ مغربی ملکوں میں چونکہ عورتوں کو گھر سے باہر لایا گیا، وہ مردوں ہی کی طرح معاشی دوڑ دھوپ میں مشغول کر دی گئی؛ اس لیے طلاق کی کثرت ہوگئی، نکاح کے رشتے مکڑی کے جالے کی طرح قائم ہونے اور ٹوٹنے لگے اور اس طرح خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا، جب خاندانی نظام بکھرا تو بچے اپنی شناخت اور ماں باپ کی محبت سے محروم ہوگئے، شوہروں کے لیے وہ سکون بخش شریکِ حیات عنقا ہوگئیں، جو پسینہ بہا کر آنے والے شوہر کا محبت کے ساتھ استقبال کرے اور بیویوں کے لیے وہ وفا شعار شوہر نہیں رہے، جو اپنی بیوی سے جاں نثارانہ محبت رکھنے والا اور جوانی کے بعد بڑھاپے میں بھی اس کا ساتھ دینے والا ہو۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام خواتین پر کسبِ معاش کا دروازہ بالکل ہی بند کر دیا گیا ہے، اگر وہ اپنے سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے کسبِ معاش کی سرگرمی میں حصہ لینا چاہے، تو اس کی گنجائش ہے۔