ہو سکتا ہے آگے چل کر عمارتوں کے گرنے کے واقعات میں اضافہ ہو جائے جس کی بڑی ٹھوس وجوہ ہیں۔ تقسیم برصغیر کے بعد جو لوگ بھارت سے ہجرت کر کے آئے ان میں زیادہ تر لوگ کراچی کی طرف آئے یہاں پر اے بی سینیا لائن اور دوسرے مقامات پر یہ لوگ جھونپڑیاں ڈال کر رہنے لگے 1950میں حکومت نے لیاقت آباد میں 90گز کے پلاٹ پر ایک کمرہ بنا کر دیا اور پلاٹ کے چاروں کونوں پر اینٹیں وغیرہ لگا کر پلاٹ کی حد بندی کر لی پھر لوگوں نے چٹائی بانس سے یا کچی مٹی کی دیوار اٹھا کر پردے کا انتظام کیا ہماری والدہ، نانی بھی اے بی سینیا لائن میں رہتی تھیں ان کے ساتھ ایک بدقسمتی یہ ہوئی کہ جب سروے والے اے بی سینیا لائن کے گھروں پر لیاقت آباد کے مکانات کی پرچی دینے آئے تو ایک راشن کارڈ پر ایک مکان کی پرچی دے رہے تھے ہماری والدہ نے بتایا کہ ہمارے یہاں تین راشن کارڈ بنے تھے ایک نانی کے نام اور دو ان کی بیٹیوں کے نام جن میں سے ایک شادی شدہ تھیں جس وقت سروے کے اہل کار گھروں پر مکان کی پرچی دینے آئے تو اس وقت ہماری نانی تینوں کارڈ لے کر راشن لینے گئی ہوئی تھیں اس طرح یہ اہل کار ہمارا گھر چھوڑ کر آگے چلے گئے جن گھروں پر راشن کارڈ دیکھا انہیں مکانات کی پرچی دیتے گئے، نانی جب راشن لے کر گھر آئیں تو انہیں بڑا افسوس ہوا بہر حال اسی وقت وہ سروے والے اہل کاروں کو ڈھونڈنے چلی گئیں ایک جگہ ان سے ملاقات ہو گئی نانی نے اپنا کارڈ دکھایا اور بہت منت سماجت کی کہ یہ تینوں کارڈ دیکھ کر وہ پرچی دے دیں لیکن وہ نہ مانے اور انہوں کہا کہ اماں کل دفتر آجانا۔ کئی ماہ تک دفتروں کے چکر لگانے پر ایک مکان الاٹ ہوا جو اسی گلی میں تھا جہاں یہ عمارت گری ہے ہم نے اپنے بچپن کا ابتدائی حصہ اسی جگہ گزارا ہے۔
ایک وقت تھا جب 90گز کے مکان میں اوسطاً 7افراد پر مشتمل ایک خاندان رہتا تھا آج صورت حال یہ ہے کہ اسی 90گز کے مکان میں 11خاندان رہتے ہیں جن کی تعداد 80 سے 100 کے درمیان بنتی ہے اب سے پندرہ سال پہلے تک یہ ہوتا تھا لوگ اپنی ضرورت کے مطابق جیسے جیسے خاندان بڑھتا ویسے ویسے وہ اوپر کی منزلیں بناتے رہے پھر کاروباری ذہن یا کچھ حقیقی معاشی ضرورتوں کے پیش نظر اوپر کی منزلیں بنا کر کرائے پر دینا شروع کردی گئیں یہاں تک تو معاملات کچھ بہتر تھے اور پانی بجلی گیس اور سیوریج کی صورت حال کنٹرول میں تھی۔ لیکن اب سے تقریباً 15-20سال پہلے ایک مکان بنایا گیا اور اس میں 45گز کے 10فلیٹس بنا کر ان کو سب لیز کرکے مالکانہ حقوق پر فروخت کردیے گئے پھر یہ سلسلہ اتنی تیزی سے بڑھا کہ آج آپ کو لیاقت آباد کی ہر گلی میں چار چھے مکانات ایسے نظر آئیں گے اس کی وجہ سے لیاقت آباد میں مکانات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا پہلے تو اس کاروبار کو ایم کیو ایم سے وابستہ لوگوں نے شروع کیا پھر اس میں پروفیشنل بلڈرز گھس آئے، ایم کیو ایم کی اپنی ایک دہشت تھی جس کی وجہ سے کسی کو یہ ہمت نہ ہوسکی کہ وہ اس پر کوئی اعتراض کرتا۔
لیاقت آباد میں جس تیزی سے فلیٹس بننا شروع ہوئے اس نے یہاں کا انفرا اسٹرکچر تباہ کر کے رکھ دیا ایک وقت تھا جب لیاقت آباد میں دو منزل سے زیادہ بنانے کی اجازت نہیں تھی اور جو اس سے اوپر بنا لیتا کے ڈی اے والے اس کا مکان توڑنے آجاتے تھے یہ پابندی شاید اب بھی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوپا رہا اس کی واحد وجہ کرپشن ہے لیکن اس سے پہلے اس کی ایک وجہ ایم کیو ایم کی دہشت تھی کے بی سی اے والوں کی ہمت نہیں تھی وہ ان کی بلڈنگ کو آکر ہاتھ بھی لگالیں۔ جب پروفیشنل بلڈرز آئے تو انہوں نے سارا کام پروفیشنل انداز میں کیا کہ ہر ایک کا حصہ طے ہوگیا کہ کس فرد، ادارے، یونٹ، سیکٹر، تھانے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو کتنا مال پانی دیا جائے گا تاکہ کوئی قانونی رکاوٹ پیدا نہ ہو، یہی وجہ ہے 6 ماہ کے اندر پانچ منزلہ عمارت کھڑی ہوجاتی ہے۔ لیاقت آباد کے چاروں طرف تو مختلف آبادیاں ہیں اس لیے اب اس کی آبادی میں اضافہ زمین کے چاروں طرف ہونے کے بجائے آسمان کی طرف ہوگیا ہے ہر گلی میں پانچ پانچ منزلہ عمارتوں کی وجہ سے اس کی شکل ایک کنوئیں جیسی بن گئی ہے 20 فٹ کی چوڑی گلیاں 10فٹ کی رہ گئیں کہ 80کی دہائی میں لوگوں نے اپنے مکان کے سامنے گیلریاں بنانا شروع کیں تو پہلے پہل کے ایم سی والے اس کو توڑنے آجاتے پھر میئر عبدالستار افغانی سے یہاں کے باشندوں نے جماعت اسلامی کے کونسلروں کے ذریعے رابطہ کر کے تین تین فٹ کی گیلریوں کی اجازت لے لی اس اجازت کا یہاں کے لوگوں کی اکثریت نے یہ فائدہ اٹھایا اس گیلری کو اپنے رہائشی حصے میں شامل کرلیا پھر مین گیٹ پر سیڑھیاں اور چبوترے بنالیے۔
ان فلیٹوں کی وجہ سے لیاقت آباد کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگیا سرجانی اور گلشن معمار تک شہر کے پھیل جانے کی وجہ سے لیاقت آباد شہر کے وسط میں آگیا پھر یہاں پانی بجلی اور گیس کی سہولتیں دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ بہتر ہیں اس لیے یہاں مکانات کے کرائے میں بھی اضافہ ہوا ہے آبادی بڑھنے کی وجہ سے جو چیز یہاں کے لیے سوہان روح بن گئی ہے وہ یہاں کا سیوریج سسٹم ہے، تمام گٹر ٹوٹ پھوٹ کر بیٹھ گئے ہیں آج لیاقت آباد کے ہر روڈ پر اور گلیوں سیوریج کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ صرافہ مارکیٹ کی تو پوری گلی سیوریج کے پانی سے بھری پڑی ہے، یہاں پیدل چلنا بھی دوبھر ہو گیا رہی سہی کسر تجاوزات نے پوری کردی، لوگوں کو گندے پانی اور کیچڑ میں سے گزرنا پڑتا ہے نمازیوں کے کپڑے خراب ہوجاتے ہیں، دوسری طرف سیوریج کا پانی مکانات کی بنیادوں کو کمزور کررہا ہے۔
لیاقت آباد کو اگر تباہی سے بچانا ہے تو حکومت کو اور تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے یہاں کا پورا سیوریج سسٹم نئے سرے سے آبادی کی ضروریات کے پیش نظر بنانا ہوگا اس کے لیے لاکھوں، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے بجٹ کی ضرورت ہو گی جس میں بلدیہ کراچی کے علاوہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی اپنا حصہ ڈالیں اس کے علاوہ ان تمام بلڈروں سے بھی کہا جائے کہ وہ جو یہاں سے کروڑوں روپے کما کر اور لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر چلے گئے وہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں ورنہ آئندہ خدا نہ خواستہ جو بھی ایسا حادثہ ہو ان تمام بلڈروں پر قتل کے مقدمات قائم کیے جائیں گے۔