پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کا الزام

269

Edarti LOHجنیوا میں انسانی حقوق کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں این جی اوز کی جانب سے پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کا بل پیش کیا گیا، پاکستان نے اس موقع پر کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے ایک وفد بھیجا تھا اس میں انسانی حقوق کمیشن کے ارکان کے علاوہ رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک اور وزیر اقلیتی امور کامران مائیکل بھی شریک تھے جس پر وہاں موجود این جی اوز مافیا ان کے خلاف سرگرم ہوگئی۔ خواتین نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پاکستان ہی کی ایک خاتون ڈاکٹر نے حکومت پاکستان کے خلاف رپورٹ پیش کی کہ حکومت اقلیتوں کے بارے میں اپنی سیاسی اور قانونی ذمے داری پوری نہیں کررہی جس کی وجہ سے اقلیتی برادری عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس کوشش میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی اور پاکستانی وفد جو تیاری کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ لے کر پہنچا تھا اس کے بعد اب دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے۔ جس ملک کی قوم سیاسی و سماجی طورپر سنگین حالات سے دو چار ہو وہاں اقلیتوں کو مستثنیٰ کرکے ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا بہت عجیب ہے۔ اس سے جہاں وطن دشمنی کی بو آتی ہے وہیں بھارتی آلہ کار این جی اوز کی نشاندہی بھی ہوگئی ہے۔ این جی اوز کا عیسائی مشینری اور قادیانی لابی کے لیے کام کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور یوں بھارت، امریکا، اسرائیل گٹھ جوڑ کے تناظر میں دیکھا جائے تو رپورٹ کا مقصد کشمیر کے حوالے سے حکومت کی کوششیں سبوتاژ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کچھ عرصے قبل حکومت نے چند این جی اوز پر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی لگائی تھی۔ یہ اس کا رد عمل بھی ہوسکتا ہے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو وہی حقوق حاصل ہیں جو اکثریت کو حاصل ہیں اور ان کے ساتھ بھی نا انصافی ہوتی رہتی ہے۔اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اسلام میں خاص تاکید کی گئی ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جہاں ہم مذہب اچھوتوں پر زندگی تنگ ہے اور دوسری بڑی اکثریت مسلمان بھی ظلم کا شکار ہیں۔ جنیوا میں پاکستانی اقلیتوں کے عدم تحفظ کا بل پیش کرنے والوں کو بھارت کی صورتحال کا علم نہیں۔