فیصلہ محفوظ، مستقبل غیر محفوظ

204

Edarti LOHپاناما مقدمے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی دو ماہ کی کدو کاوش اور پھر عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ میں تمام فریقوں کے وکلا کی طویل بحث کے بعد جمعہ کو عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ فیصلہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ فی الوقت تو ’’انتظار فرمایئے‘‘ کا ایک اور مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے جب پاناما کا مقدمہ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے گیا تھا تو ان میں سے دو ججوں نے نواز شریف پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے قرار دیا تھاکہ وہ صادق ہیں نہ امین۔تاہم دیگر تین ججوں نے وزیراعظم کو موقع دیتے ہوئے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنادی، اس تاکید کے ساتھ کہ رپورٹ 60 دن میں پیش کردی جائے۔ یہ پوری کہانی عوام کے سامنے آچکی ہے، وکلا کی بحث بھی مکمل ہوگئی ہے۔ اس پورے عرصے میں نواز شریف کے حواریوں کی ٹیم اور تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کے رہنمائوں نے اتنی گند اچھالی ہے کہ شرافت و نجابت منہ چھپائے پھرتی رہیں۔ سوائے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے کسی نے بھی شائستگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بے ہودگی اور بد کلامی میں جو افراد سر فہرست رہے ان کو سب پہچان چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی زبان درازی سے خود میاں نواز شریف کو نقصان پہنچایا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ دوسروں کی پگڑی اچھالنے والے اگر پھر برسر اقتدار آگئے تو کسی کی عزت سلامت نہیں رہے گی۔ میاں نواز شریف نے دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم گالیاں نہیں نکالتے ( گالیاں نہیں دیتے)لیکن کیا انہوں نے اپنے درباریوں کی گفتگو نہیں سنی جو ٹی وی چینلز بڑے ذوق، شوق سے بار بار نشر کرتے رہے۔ وزیراعظم نے ان کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی بلکہ ممکن ہے کہ بعد میں پیٹھ بھی تھپکتے ہوں۔ دشنام طرازی اور گالم گلوچ کے اس گندے تالاب میں سب ہی ڈبکیاں لیتے ہوئے نظر آئے۔اب عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے لیکن گزشتہ جمعرات کو عدالت کے معزز ججوں نے جو تبصرہ کیا وہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کے لیے سخت انتباہ تھا اور اس سے ایک دن پہلے کے اظہار خیال سے مختلف تھا۔ مشاہدہ یہ ہے کہ عدالت کے تبصروں اور فیصلوں میں فرق ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ تبصرے فیصلہ نہیں ہوتے تاہم ذرائع ابلاغ کی توجہ کا باعث بنتے ہیں۔ جمعرات کی سماعت میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ شریف خاندان کی طرف سے جو دستاویزات پیش کی گئیں وہ جعلی ہیں جس پر 7 سال قید ہوسکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جعلی دستاویزات پیش کرکے میرا دل توڑ دیا۔ پوچھتے ہیں الزام کیا ہے تو ہم بتاتے ہیں کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کا الزام ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے لواری ٹنل کا افتتاح کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ میرے لیے عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔ محترم وزیراعظم! عدالت کا فیصلہ خواہ کچھ ہو لیکن عزت کا تو کچرا ہوچکا ہے۔ اب تو یہ کہاجارہاہے کہ فیصلہ اگر حق میں نہ ہوا تو قوم تسلیم نہیں کرے گی۔ قوم تو اس معاملے میں بھی بٹی ہوئی ہے اور یوں بھی حکمرانوں کی تبدیلی سے قوم کے روز و شب تبدیل نہیں ہوتے، ان کی بلا سے ایوان اقتدار میں کوئی بھی جا بسے۔ عدالت کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے کا مطلب سڑکوں پر فیصلہ کروانا ہے۔ یہ دھمکیاں عمران خان تو اٹھتے بیٹھتے دیتے ہی رہے ہیں اور دعویٰ ہے کہ ان کے ایک اشارے پر پوری قوم سڑکوں پر نکل آئے گی۔وہ ایسا کوئی اشارہ کرکے دیکھ لیں۔ دوسری طرف خود مسلم لیگ ن میں اختلافات گہرے ہورہے ہیں۔ ممکن ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار بھی کوئی دھماکا کر ڈالیں جو اپنی کمر میں تکلیف کی وجہ سے گوشہ نشیں ہیں۔