خالہ خیرالنساء کی حیرت

194

zc_ZairOZabarاب تو نام یاد ہے، نہ مقام۔ بس اتنا یاد ہے کہ یہ دلچسپ قصہ برسوں پہلے کسی اخبار یا جریدے میں ایک معمر ادیب کی سوانح نو عمری کے طور پر پڑھا تھا۔ لب لباب اس قصے کا کچھ یوں ہے کہ غیر منقسم ہندوستان … یعنی برطانوی ہند … کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک بڑے سرمایہ دار کو اخبار نکالنے کاخیال آیا۔ اُس زمانے میں ’’صحافی‘‘ نام کی (الگ سے) کسی مخلوق کا وجود ہی نہ تھا۔ شاعر اور ادیب ٹائپ کے لوگ ہی صحافی بن جایا کرتے تھے۔ سرمایہ دار موصوف نے بھی … کہ سکھ تھے … اُردو کے ایک سکھ شاعر و افسانہ نگار کو بصرفِ زرِ کثیر ’’ہائر‘‘ کیا اور اُنہیں اخبار نکالنے اور اس کی اشاعت بڑھانے کی ذمے داری سونپ کر فارغ ہوگئے۔ ادیب موصوف نے خوب خوب جولانیاں دکھائیں۔ بڑی بڑی شہ سرخیوں میں انگریز حاکموںکو … ظالم، غاصب، چور، لٹیرے وغیرہ وغیرہ… (جو کہ وہ تھے) … لکھنا شروع کردیا۔ اخبار تو خیر خوب بِکا۔ مگر ایک روز سرکارِ انگلیشیہ کو خیال آیا تو سرمایہ دار موصوف کے نام پریس کی ضبطی، اخبار کی بندش اور جائداد کی قُرقی کا آرڈر بھیج دیا۔رعایا کو سرکار کے خلاف بھڑکانے کا الزام الگ لگا۔ موصوف تڑپ کر رہ گئے کہ یہ کیا ہوگیا۔ اخبار کی فائلیں منگوائیں اور جن تاریخوں کا حوالہ دیا گیا تھا، اُن تاریخوں کی سرخیاں بطورِ خاص کسی سے پڑھوائیں۔ سرخیاں واقعی اشتعال انگیز تھیں۔ مدیر محترم یعنی ادیب موصوف طلب کر لیے گئے۔ سرمایہ دار صاحب نے اُن سے باز پُرس کی:
’’ارے بابا! تم نے اخبار میں ایسی سرخیاں کیوں لگادیں؟‘‘
ادیب بابو نے جواب دیا: ’’ان سے عوام میں تھِرل پیدا ہوتا تھا اور اخبار گرما گرم پکوڑوںکی طرح بِک جاتا تھا‘‘۔
غصے میں دانت کچکچا کر رہ گئے۔ اور کچھ تو نہ کہہ سکے … کہ ادیب موصوف واقعی ایک بڑے ادیب تھے… بس اتنا کہہ کر اُنہیں نوکری سے چلتا کردیا کہ: ’’تمہارے اِس تھِرل نے ہمارا پِڑل کر دیا ہے‘‘۔
یہ قصہ ہمیں موجودہ حکمراں مسلم لیگ (ن) کی موجودہ کیفیت دیکھ کر یاد آیا۔ انتخابی مہم میں بڑے میاں صاحب تو بیش تر محتاط ہی رہے۔ بہت ہوا تو کراچی سے ملک کے بالائی علاقوں تک ’بلٹ ٹرین‘ چلانے کا وعدہ کرلیا۔ مگر چھوٹے میاں صاحب نے ملک کے مختلف شہروں میں میٹرو بس چلانے کے وعدے سے لے کر لوڈشیڈنگ کے خاتمے، زر بابا کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور چالیس چوروں کو اُن کے عبرتناک انجام سے دوچارکرنے سمیت ایسے ایسے پُرجوش خطابات کیے کہ عوام میں ’تھِرل‘ پیدا ہوگیا۔ مارے ’تھرل‘ کے اُنہوں نے ’ن‘ لیگ کو تقریباً تقریباً دو تہائی اکثریت دے کر اسمبلی ہی تک نہیں، ایوانِ حکومت تک پہنچا دیا۔مگر زر بابا کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کرنے والوں نے خود جو کچھ کیا اُس کے نتیجے میں اب اُن کا ’پڑل‘ ہوتا نظرآرہا ہے۔
آج کل جو صورت ِ حال ہے اُس پر سب ہی کچھ نہ کچھ کہہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہماری خالہ خیرالنساء بہت دنوں بعد آئیں تو آتے ہی کہنے لگیں: ’’اے بیٹا! ہمارے ملک میں ڈاکٹر ہیں، اُستاد ہیں، لوہار ہیں، سنار ہیں، تیلی ہیں، کمہار ہیں، بڑھئی ہیں، بزاز ہیں، بنجارے ہیں … اور یہ ماڑے نگوڑے رکشا، ٹیکسی، ویگن، بس اور ٹرک چلانے والے ہیں … آخر یہ سب کے سب کچھ کرتے ہیں تو کماتے ہیں نا … بیٹا! یہ حکومت آخر کیا کرتی ہے؟ سوائے ہماری کمائی میں سے ٹیکس لینے کے‘‘۔
خالہ نے اپنے گوشہ ہائے لب سے پان کی پیک صاف کرنے کو اپنی تقریر میں وقفہ کیا تو ہم نے موقع غنیمت جان کر حکومت کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی: ’’خالہ ایسی بات نہیں کہ حکومت کچھ بھی نہ کرتی ہو۔ کچھ نہ کچھ تو حکومت بھی کرتی ہے۔ تبھی تو ہماری زندگی کا یہ سارا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ حکومت سڑکیں بناتی ہے، پل بناتی ہے، بند بناتی ہے، قانون بناتی ہے اور بجٹ بناتی ہے۔ اُسے بھی تو خرچہ پانی چاہیے۔ آخر کو یہ ہماری اپنی ہی حکومت ہے، اس کو خرچہ پانی ہم نہیں دیں گے تو کون دے گا؟ کیا قطری شہزادہ دے گا؟‘‘
خالہ بِدک گئیں: ’’شابش ہے بیٹا … شابش! … مجھے اُلّو بنا رہا ہے … میرے سفید چونڈے کا بھی لحاظ نہیں ہے؟ کیا یہ باتیں میں نہ جانوں ہوں جو تو مجھے پڑھا رہا ہے۔ مگر یہ بتا … ہر سال ہر چیز پہلے سے دو گنا کیوں مہنگی ہوجاوے ہے؟ ہر سال حکومت کا خرچہ پچھلے پرلے سال سے کیوں بڑھ جائے ہے۔ ہماری مٹی تو سونا اُگل رہی ہے۔ ہمارے مزدور کسان تو چاندی بنا رہے ہیں۔ مگر اِس دھرتی کے بیٹے اِسی کے سینے سے چمٹ کر اسی پر لیٹے بھوکے سورہے ہیں‘‘۔
خالہ کو جذباتی ہوتے دیکھ کر عرض کیا: ’’خالہ آپ سے کیا چھپانا؟ حکومت کے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ برس کے برس ہماری حکومت خرچہ چلانے کو باہر سے سود پر قرضے لے لیتی ہے۔ ہرسال سود بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پہلا قرضہ لیے بھی ایک مدت ہوگئی ہے۔ ’’رقم بڑھتی گئی جوں جوں ادا کی‘‘۔ یہ آپ نے جتنے لوگوں کے کام کرنے اور کمانے کا ذکر کیا ہے اُن کی اور ہم سب کی کمائی صرف سود ہی ادا کرنے میں تو جارہی ہے۔ مزید سود دینے کے لیے ہر سال مزید ٹیکس لگانا پڑتا ہے …‘‘
خالہ نے اپنے ہی کلیجے پر دو ہتڑ مارنے شروع کردیے: ’’ارے ہائے ہائے … ہائے۔ کیا میری محنت کی حلال کمائی بھی اِسی حرام کام میں جارہی ہے؟ … حرام کاموں میں تو حرام کمائی جایا کرتی ہے… میری کمائی تو حلال کی ہے…‘‘
اے صاحبو! ہنسو نہیں۔ خالہ خیرن اپنی بیوگی کے بعد ہی سے کپڑے سی سی کر گزارہ کررہی ہیں۔ ہر سال دھاگے مہنگے ہوجاتے ہیں۔ سلائی مشین اب ہاتھ سے چلانے کا خالہ میں دَم خم نہیں رہا۔ سو وہ بجلی کی موٹر سے چلتی ہے۔ ہر ماہ بجلی کا بل بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ گھر کے سودا سُلف کا تو خالہ خود تذکرہ کر چکی ہیں۔ ایک روز ہمارے گھر آڑو کھاتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ بیٹا اب تو میں خرید کر پھل کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ یہ بات وہ سادہ لوحی سے نہیں، بڑے اذیّت بھرے لہجہ میں کہہ رہی تھیں اور نہایت کرب سے بار بار سوال کرتی رہیں:
’’کیا میری محنت کی حلال کمائی بھی اِسی حرام کام میں جارہی ہے؟ … کیا میری محنت کی حلال کمائی بھی اِسی حرام کام میں جارہی ہے؟ … کیا؟ …‘‘
ہم نے ندامت سے عرض کیا: ’’کیا کریں خالہ؟ قرضہ جو لینا پڑتا ہے‘‘۔
یہ سن کر فرطِ غضب سے بھڑک اُٹھیں۔ کہنے لگیں: میں کہتی ہوں قرضہ لینے کی مار کیا آئی ہوئی ہے۔ چادر دیکھ کر پاؤں کیوں نہیں پھیلاتے؟ جھوٹا موٹا کیوں نہیں پہنتے؟ روکھی سوکھی کیوں نہیں کھاتے؟‘‘
اب کے ہم نے بقول خالہ کے اُن کے سفید چونڈے کا لحاظ کیا۔ اور اُن کو مزید ’اُلّو بنانے‘ سے گریز کرتے ہوئے کہا:
’’اوپر والے رُوکھی سوکھی نہیں کھاتے نا۔ آپ کی محنت کی کمائی سے لوگ کیا کیا کھاتے، کیا کیا پیتے اور کیا کیا گل چھرے اُڑاتے ہیں اگر آپ کو پتا چل جائے تو ہمیں ابھی اپنے گھر سے میت کو غسل دینے والی اور زنانہ کفن سینے والی کی تلاش میں نکل جانا پڑے گا۔ پھر خالہ اوپر تو لوٹ مار بھی بہت ہے۔ خیانت، غبن، چوری، ڈکیتی، کمیشن، کِک بیک … (یعنی تشریف پر لات) …‘‘
ہم نے غسلِ میّت اور کفن کا ذکر خاص طور سے چھیڑا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ خالہ بھڑک کر اپنا رٹا رٹایا فقرہ کہیں گی کہ: ’’ارے میں ایسے نہیں مروں گی۔ سب کو مار کے مروں گی‘‘ اِس کے بعدوہ سر پر برقع رکھیں گی اور یہ جاوہ جا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ خالہ شدید حیرت اور گہری فکر میں ڈوب گئیں۔ کہنے لگیں: ’’بیٹا! یہ تو وہ زمانہ آن لگا ہے جو ہمارے رسولِ پاکؐ کے آنے سے پہلے کا زمانہ تھا۔ کیا اِس کھلم کھلا ڈکیتی سے اللہ کی مخلوق کو بچانے والا اِس قوم میںکوئی بھی نہیں بچا کیا کوئی جی دار ایسا نہیں جو نیچے سے اُٹھے اور اوپر تک پہنچ کر ظلم کا یہ سارا سلسلہ اُکھاڑ پھینکے؟‘‘
ندامت سے عرض کیا: ’’قوم کو ظلم کے پنجے سے چھڑانے اور لوٹ مار کے نظام کو اُکھاڑ گرانے کے دعویدار تو بہت ہیں خالہ۔ مگر عملاً سب یہی چاہتے ہیں کہ نیچے سے اوپر تک جانے کا سارا سسٹم یہی رہے۔ ہم بھی اِسی سسٹم کے سہارے اوپر چڑھ جائیں۔ اور یہ جو لوٹ مار کا نظام ہے، یہ کسی اور کے ہاتھوں کیوں چلے؟ ہمارے ہاتھوں کیوں نہ چلے!‘‘ یہ سُن کر خالہ یکایک ’’فریز‘‘ ہوگئیں۔ اپنے دانتوں تلے اُنگلی دبائی اور اپنی آنکھوں کی پُتلیاں پھیلا کر مارے حیرت کے ساکت ہو گئیں۔ ہم وضو کرنے کو بھاگے کیوں کہ سورۂ یٰسین زبانی یاد نہیں ہے!