انتخابی اصلاحات کمیٹی میں نیا بل منظور‘ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا اختلافی نوٹ‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا بائیکاٹ

480

اسلام آباد(آن لائن+اے پی پی)انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن ڈرافٹ بل2017ء کی منظوری دیدی ہے،الیکشن کمیشن کو مکمل مالیاتی اور انتظامی خودمختاری دینے کے ساتھ ساتھ انتخابات کے دوران بے ضابطگی کے مرتکب افسران کو سزائیں دینے کا اختیار بھی دیدیاگیا ہے،کسی بھی حلقے میں خواتین کے10 فیصد سے کم ووٹ ہونے کی صورت میں انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے گا،نگران حکومت صرف روزانہ کے امور دیکھے گی اور اس میں شامل کابینہ کے اراکین بھی اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائیں گے،سیاسی جماعتیں خواتین کو کم از کم 5فیصد ٹکٹ دینے کی پابند ہوں گی،جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اختلافی نوٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے احتجاجاً اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔جمعے کے روز انتخابی اصلاحات کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں منعقد ہوا، اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات کے لیے بنائے گئے 9قوانین کو آپس میں ضم کرکے ایک ہی قانون بنایا گیا ہے جس کی رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی جائے گی اس قانون کی منظوری کے بعد آنے والے انتخابات نئے قانون کے تحت ہوں گے ،انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے انتخابی اخراجات نگران حکومتوں کے قیام سمیت چندامور کے حوالے سے اختلافی نوٹ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک پارٹی نے نگران حکومتوں کے قیام پر اختلاف کیا ہے جس پر مزید مشاورت کی جائے گی،اس طرح موجودہ الیکشن کمیشن کو ختم کرکے نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے پارٹیوں کے مابین اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کی جانب سے بھی چند سفارشات پیش کی گئی تھیں اور ان تمام معاملات پر مستقبل میں مشاورت کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس ایک نیا قانون ہوگا اور اس کے مطابق نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔اس موقع پر وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ یہ ایک تاریخی دن ہے ملک میں40سال بعد انتخابی اصلاحات کا قانون منظور ہونے جارہا ہے،اس سے ملک کا انتخابی نظام مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ انتخابی قوانین کے لیے ہمیں مجموعی طور پر1283 تجاویز ملی ہیں اور اس پر کمیٹی کے اجلاسوں میں مشاورت کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش تھی کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور بائیومیٹرک تصدیق کے تجربات جلد از جلد کیے جائیں اسی طرح سمندر پار پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں شریک کرنے کے لیے تجربات کیے گئے اور سفارتخانوں میں تجرباتی بنیادوں پر ووٹنگ کرائی گئی مگر ہم کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور اس میں کئی مسائل درپیش آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے انتخابی اخراجات کے لیے اسے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی اب الیکشن کمیشن کو اپنے اخراجات کے علاوہ اپنا الیکشن پلان بھی بنانے کا اختیار ہوگا انتخابی حلقہ بندیاں ہر مردم شماری کے بعد کرائی جائیں گی حلقوں کے درمیان 10 فیصد سے زائد ووٹوں کے تناسب میں فرق نہیں ہوگا ، نئے ووٹ کی رجسٹریشن نئے کمپوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے اجرا کے ساتھ ہی از خود ہوجائے گی ،ووٹرز کی تصاویر والی انتخابی فہرستیں امیدواروں کو فراہم کی جائیںگی انتخابی عملہ پولنگ سے 60دن قبل تعینات کیا جائے گا جو پہلی بار الیکشن کمیشن کے قواعد کی پابندی کا حلف دے گا، ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے پولنگ اسٹیشن کا فاصلہ ایک کلو میٹر ہوگا ، سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لیے ایک ہی طرز کے کاغذات نامزدگی فارم ہوں گے ،قومی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی فیس 30ہزار، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے 20ہزار ہو گی ، امیدوار کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران اپنے واجب الادا قرضے ، یوٹیلیٹی بلز اور ٹیکس ادا کرنے کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کا پابند ہوگا ۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا طریقہ کار بھی وضع کر دیا گیا ہے اب اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی ملک بھر کے لیے یکساں طریقہ کار کے تحت ہو گی جس کا اختیارریٹرننگ افسران کے پاس نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے پاس ہوگا ، جعلی (ٹنڈر ) ووٹ ڈالے جانے کی صورت میں اس کی فرانزک تفتیش کرائی جائے گی اور اس کی نادرا سے نشاندہی کر اکرسزا دی جائے گی ۔ریٹرنگ افسرفوری طور پر عبوری رزلٹ تیار کر ے گا اور حتمی نتائج کا3 روز میں اعلان کیا جائے گا، عبوری رزلٹ میں پریذائڈنگ افسران اور امیدواروںکے پولنگ ایجنٹس کے دستخط بھی ہوں گے ، اگر ایک کامیاب امیدواراور ہارنے والے امیدواروں کے درمیان 5 فیصد سے زائد کا فرق ہوگا تو نتائج کے اعلان سے پہلے ریٹرنگ افسر حصہ لینے والے امیدواروں کی درخواست پر دوبارہ گنتی کرائے گا ،اگر2 امیدواروں کو برابر ووٹ پڑتے ہیں تو انہیں آدھی آدھی مدت دی جائے گی ۔انتخابی اخراجات کے لیے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ ٹیمیں نگرانی کریں گی زائد اخراجات کرنے والے امیدوار کے خلاف براہ راست قانونی کارروائی کی جائے گی ، سالانہ مالی گوشوارے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت جمع کرائے جائیں گے، اگر کوئی ممبر اس میں ناکام رہتا ہے تو 60روز بعد الیکشن کمیشن اس کی ممبر شپ معطل کر سکے گا۔ انتخابی عذرداریاں نمٹانے کے لیے ٹریبونلز کی مدت 4ماہ مقرر کی گئی ہے، ٹریبونلز میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی، ایک امیدواربراہ راست انتخابی عذرداری الیکشن ٹریبونل میں دائر کر سکے گا ۔نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے کم سے کم 2ہزار اراکین اور 2 لاکھ روپے رجسٹریشن فیس مقرر کی گئی، سیاسی جماعت کے لیے سالانہ مالیاتی گوشوارے اور ایک لاکھ سے زائد عطیہ کرنے والے ڈونرز کی فہرست جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے ، بلدیاتی حکومتوں کی حلقہ بندی الیکشن کمیشن کی جانب سے قائم حلقہ بندی کمیٹی کرے گی، نگران حکومت روزانہ کی بنیادپر معمول کے کام اور غیر متنازع امور نمٹائے گی، نگران حکومت فوری نوعیت کے معاملات کے علاوہ بڑے پالیسی فیصلے نہیں کر سکے گی ، ارکان پارلیمنٹ کی طرح نگران حکومت میں شامل افراد بھی الیکشن کمیشن کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے ، الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے امیدواروں اور پولنگ ایجنٹس کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کرے گا ۔میڈیا سیکورٹی اہلکاروں اور انتخابی مبصرین کے لیے بھی ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے گا، الیکشن کمیشن ملکی اور غیر ملکی مبصرین کو ایکریڈیٹیشن کارڈ جاری کرے گا ۔خواتین کی انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے کے لیے عمومی نشستوں پر 5 فیصدٹکٹ خواتین کو دینے کی سیاسی جماعتیں پابند ہوں گی کسی حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد10 فیصد سے کم ہوئی تو الیکشن کمیشن اس کی تحقیقات کرے گا کہ ایسا کسی معاہدے کی وجہ سے تو نہیں اگر ایسا ثابت ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن متعلقہ حلقے کے انتخاب کو کالعدم قراردے دے گا۔خواتین کی انتخابی عمل میں شرکت بڑھانے کے لیے میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلائی جائے گی ۔ایک سوال کے جواب میںوزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہاکہ جب دستوری ترامیم پر بات ہوگی تو آرٹیکل 62اور 63پر بھی غور ہو گا۔ایک جماعت کاموقف یہ تھا کہ ضیا الحق دور کے 62اور 63 کے آرٹیکلز میں کی گئی ترامیم کو ختم کر کے اپنی اصل شکل میں بحال کیا جائے۔