گزشتہ جمعہ کوانتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن ڈرافٹ بل 2017ء کی منظوری دے دی ہے۔ جس کو جلد ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کردیا جائے گا۔ مذکورہ بل میں الیکشن کمیشن کو مکمل مالیاتی اور انتظامی خود مختاری دینے کے ساتھ ساتھ انتخابات کے دوران میں بے ضابطگی کے مرتکب افسران کو سزائیں دینے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے اس طرح الیکشن کمیشن مضبوط ہوگا اور یہ اچھی بات ہے اور سرکا ر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس سے ملک کا انتخابی نظام مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔ یہ ا جلاس وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں ہوا جنہوں نے ایک سوال پر کہا کہ جب دستوری ترمیم پر بات ہوگی تو آئین کی شق 62اور 63 پر بھی غور ہوگا۔ کچھ سیاسی جماعتیں ایک عرصے سے آئین کی ان شقوں کے خلاف مہم چلا رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ انہیں آئین سے خارج کیا جائے۔ آئین میں یہ شقیں جنرل ضیاء الحق نے شامل کرائی تھیں اور جو لوگ ان شقوں پر پورے نہیں اترتے وہ انہیں خارج کروانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ ان شقوں میں امیدواروں کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ صادق اورامین کی شہرت رکھتے ہوں ۔ معروف طور پر بدعنوان نہ سمجھے جاتے ہو ں۔ چنانچہ ایک فاضل جج نے تبصرہ کیا تھا کہ اگر ان شقوں پر عمل کیا جائے تو پارلیمان میں صرف جماعت اسلامی رہ جائے گی باقی سب نا اہل ہو جائیں گے۔ گزشتہ دنوں ہی عدالت عظمیٰ کے دو فاضل جج یہ کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں اس لیے نا اہل ہوگئے۔ بہرحال الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے تیار کردہ بل پر 16جماعتوں نے تو دستخط کردیے لیکن پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور ق لیگ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا اصرار ہے کہ ضیا دور کی ترامیم منسوخ کر کے 1973ء کا آئین صحیح شکل میں بحال کیا جائے۔ لیکن 1973ء کے آئین کی صحیح شکل تو خود، بھٹو نے بگاڑ دی تھی اور منظور ہونے کے فوراً بعد ترامیم شروع کردی تھیں ۔ ضیاء الحق کی 8ویں ترمیم پر تو بہت شور مچا لیکن اس سے پہلے خود بھٹو صاحب 7ترامیم کرچکے تھے۔ بہرحال اجلاس میں آئین کی شق 62اور 63 پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق نہیں ہوسکا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نئے انتخابی بل میں جو انتہائی حساس نوعیت کی ترامیم کی گئی ہیں ان کی وجہ سے شہریوں کی ذاتی زندگی محفوظ نہیں رہے گی، سیاست دانوں، ارکان پارلیمان ، ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسر، عدلیہ کے ارکان اور اساتذہ وغیرہ کے گھر کے نمبر سر عام دستیاب ہوں گے جس کی وجہ سے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوں گے با تصویر انتخابی فہرستیں امیدواروں کو دینا آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔ امکان یہی ہے کہ معمولی ترامیم کے بعدنیا انتخابی بل منظور ہو جائے گا اور آئین کی دو شقوں 62-63 سے خوف زدہ عناصر انہیں خارج کرانے کی مہم بھی چلاتے رہیں گے ۔ اب تو ممکن ہے کہ اس میں مسلم لیگ ن بھی شامل ہو جائے ۔