جو بات روز اوّل سے کھٹک رہی تھی وہ اس اتحاد سے ایران کو باہر رکھنا تھا۔ ایران مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ہے اور اسے اتحاد سے باہر رکھنے کا مطلب اتحاد پر مسلکی چھاپ کو گہرا کرنا تھا۔ تاہم اس اتحاد کی سربراہی کے لیے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل کا انتخاب پاکستان کی اہمیت کے ادراک کا پتا دے رہا تھا۔ کئی ماہ گزر گئے اتحاد کے حوالے سے اس کے سوا کوئی خبر نہ ملی کہ جنرل راحیل شریف اب بدلے ہوئے حالات میں وطن واپسی کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے سینیٹ میں یہ انکشاف کیا کہ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف تاحال کسی اسلامی فوج کی سربراہی نہیں کررہے۔ تاحال ایسی کوئی فوج بنی ہی نہیں اور نہ ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) بنائے گئے ہیں۔ جب بھی اس اتحاد کے ٹی او آرز بنیں گے تو پارلیمان کو آگاہ کیا جا ئے گا۔ مشیر خارجہ کے اس بیان کے بعد چیرمین سینیٹ نے یہ سوال پوچھا اگر فوج ابھی نہیں بنی تو پھر راحیل شریف سعودی عرب میں کیا کر رہے ہیں؟۔ اصول وضوابط ابھی بنے نہیں فوج بن گئی۔
مشیر خارجہ کے اس بیان سے پہلے ہی اسلامی فوج ایک معما بنتی نظر آرہی تھی۔ اس فوج کے قیام کا اعلان جن حالات میں ہوا تھا وہ کچھ اور تھے اور ابھی سال سے کم عرصہ ہوا ہے کہ حالات یکسر الگ رخ اختیا رکرچکے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ پاکستان میں اسی وقت سے نزع کا باعث بنا ہوا ہے جب سعودی عرب نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی جنرل راحیل شریف کی خدمات مانگ لی تھیں۔ یہ پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کا زمانہ تھا اور حکومتی حلقے اس کشمکش کی بڑی وجہ جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کو قرار دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جنرل راحیل ملازمت میں توسیع کے لیے انہیں عمران خان کے ذریعے تنگ کر رہے ہیں۔ وقت نے اس خیال کو غلط ثابت کیا۔ چوںکہ سعودی عرب پاکستان کے سیاسی تنازعات کو حل کرنے میں ماضی میں بھی کردار ادا کرتا رہا ہے اسی لیے سعودی عرب نے بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش میں پاکستان کے تیزی سے مقبول ہوتے ہوئے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کے لیے ایک بڑا منصب تلاش اور تراش کے حقیقت میں پاکستان کے سیاسی تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ وہ تنازع جس کی بنیادوں میں ’’فلسفہ توسیع ِ ملازمت‘‘ کو تلاش کیا گیا تھا۔ گویا کہ سعودی عرب نے جنرل راحیل شریف کی ملازمت کا تسلسل ٹوٹنے بھی نہیں دیا اور پاکستان کے ایک سیاسی تنازعے کو مسلم لیگ ن کے نقطہ ٔ نظر سے حل کرنے کی کوشش بھی کی۔
یہی وہ وقت تھا جب امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات تیزی سے خراب ہو رہے تھے اور امریکا اور ایران کے درمیان ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے تعلقات میں بہتری کے آثار تھے۔ سعودی عرب اس صورت حال کا گہری نظر سے مشاہدہ کررہا تھا۔ ایران مشرق وسطیٰ میں حالات کا پانسا اپنے حق میں پلٹنے میں کامیاب ہو رہا تھا اور سعودی عرب کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ ایران اس کے دائیں بائیں اپنا اثر رسوخ بڑھا کر حقیقت میں اس کا گھیرائو کر رہا ہے۔ ایسے میں ان کے ذہن میں ایک مشترکہ فوج کا تصور موجود تھا مگر جلد ہی حالات تبدیل ہوگئے۔ راحیل شریف ریٹائر ہوکر سعودی عرب چلے گئے تو اس وقت بھی علاقائی منظر خاصا بدل چکا تھا۔ امریکا اور ایران کے تعلقات دوبارہ بگڑ چکے تھے اور سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں بہتری آگئی تھی۔ امریکا نے ایران کو کچھ معاملات میں راہ دے کر اور اس سے سعودی عرب کو خوف زدہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کر لیے تھے جس کے بعد سعودی عرب دوبارہ خود سپردگی پر آمادہ ہوچکا تھا۔ اب شاید ایران کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ نائن الیون کے حوالے سے تنگ اور بیزار سعودی عرب کے ساتھ امریکا دوبارہ صلح کر رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ ایران کی طرح پاکستان بھی ذرا مختلف انداز میں مغرب کا ہدف ہی تھا۔ ایران پر مشرق وسطیٰ اور خلیج میں انتہا پسندی پھیلانے کے الزامات ہیں اور دوسرے پر بھارت اور افغانستان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی فرد جرم تیار ہے۔ امریکا کے لیے بھارت اور افغانستان کے تناظر میں قطعی ناپسندیدہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ کا کسی اہم ذمے داری پر فائز ہونا بھی زیادہ خوش کن تصور نہیں تھا۔ یہ جنرل راحیل شریف ہی تھے جن کے دور میں ایک آپریشن کے ذریعے پاکستان میں ایسی عسکریت کو کچل دینے کی کوشش ہوئی جس کے ڈانڈے پاکستان سے باہر بہت دور تک جاملتے تھے۔ ان تبدیل شدہ معروضی حقائق میں اسلامی اتحاد ایک معما اور اس کا وجود ایک پہیلی ہی بن گیا۔ اب مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بیان نے اس معاملے کو طشت ازبام کر ہی دیا تو جنرل راحیل شریف کو مزید کسی تنازعے کامرکز رہنے کے بجائے گھر کی راہ لینی چاہیے۔ ان کے تجربے، فہم وفراست کی ضرورت پاکستان کو ہے۔ یوں بھی پاکستان کے ایک مقبول سپہ سالار کے لیے غیر واضح مقاصد کی دلدل میں پائوں رکھنا یا انگریزی محاورے سڑھی ہوئی سبزی کے طور پر تنخواہ اور مراعات کے لیے سعودی عرب میں قیام کرنا قطعی مناسب نہیں۔