پُھل نساء

299

baba-alifکرپشن اور کرپٹ لوگوں پر لعنت بھیج یے۔آئیے زندگی کی بات کرتے ہیں۔پُھل نساء کی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے نام پر گئی تھی۔پھول جیسی عورت۔ایسا لگتا تھا اس کے چہرے کی کھال کے نیچے ٹیوب لائٹیں روشن ہیں۔ گلاب کی سرخی جس پر تھرکتی پھر رہی ہو۔کبھی گالوں،کبھی ہونٹوں‘ کبھی پیشانی اورکبھی ٹھوڑی پر۔وہ غزل کی فضااور چاندنی کا سماتھی۔ پھولوں سے بھرے سبزہ زار اسے دیکھتے تو روز ملنے آتے۔ بالوں کی لٹیں،ڈمپل پڑتے رخساراور ابھرے ابھرے ہونٹ۔وہ ایسی تھی کہ اس کے لیے جان دی جاسکتی تھی۔جان لی جاسکتی تھی۔اس کا دل دکھانے سے بہتر تھا کہ آدمی مرجائے۔لیکن اسے اپنے بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ اس زمانے میں کسی کوبھی اپنے بارے میں کچھ زیادہ پتا نہ ہوتا تھا۔ کراچی کی ایک کچی بستی،تیزی سے گنجان ہوتا یہ پٹیل پاڑہ تھا۔ موٹے کپڑے کی بہت گھیر والی شلواراور گھٹنوں سے نیچی ڈھیلی ڈھالی قمیص پہنے وہ کسی سیم برکی صورت گندی اور تنگ گلیوں میں کھیلتی پھرتی تھی۔سب پٹھانیاں ایسے ہی کپڑے پہنتی تھیں۔وہ تیرہ چودہ برس کی ہوگی۔ایک دن گلی میں کھیل رہی تھی کہ اس کی ماں نے پکڑ کر اس کا منہ دھلایا،کپڑے بدلے اور ایک مضبوط جسم،چھوٹے قد اور اس سے چار پانچ برس اوپر کے گینڈے سے اس کی شادی کردی جو رکشہ چلاتا تھا۔
70اور80کی دہائی میں پٹیل پاڑے کی صورت یہ تھی کہ سرحد اور دیگر قبائلی علاقوں سے پٹھان خاندان وہاں آتے،جس کو جہاں اور جتنی جگہ ملتی جھگی ڈال لیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ چٹائیوں اورٹاٹ کی دیواریں بغیر پلاستر کی کچی دیواروں اور ٹین کی چادروںکی صورت اختیار کرگئیں۔ہماری بیٹھک کی پتلی سی دیوار کے ساتھ کچھ زمین خالی پڑی تھی۔اس پرقبضہ کرکے، ایک کمرہ اور چھوٹا سا صحن بنا، پھل نسا ء اوراس کے شوہر کو اس کے والدین نے وہاں آباد کردیا۔وہ پسماندہ بستیوں اور محلوں جیسی بستی تھی۔ جہاں بغیر کمیو نیکیشن آلات کے سب کچھ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتا تھا۔ ہم نے جب بھی دیوار کے اوپر سے جھانک کر دیکھا پُھل نسا اور اس کے شوہر کو ایک دوسرے کے لیے بیقراراور مضطرب دیکھا۔ان کی محبت میں ایک قسم کی دیوانگی تھی۔ پھل نساء کی نیند بہت گہری تھی۔بارہا ایسا ہوتا کہ اس کاشوہر رات کو دس گیارہ بجے گھر آتا تو دیر تک آواز دیتا رہتا لیکن وہ بے خبر سوتی رہتی۔ان دنوں چھوٹے ماموں ہمارے کمرے میں ہی سوتے تھے۔جیسے ہی گینڈا’’وے پھل نساء،وے پھل نساء‘‘ پکارتا دروازہ تھپ تھپ کرتا،ماموں اونچی آواز سے ’’ہوں‘‘کردیتے۔ گینڈا سمجھتا پھل نساء جاگ گئی ہے۔اور اپنے جاگنے کا اشارہ کرکے بس دروازہ کھولنے والی ہے۔دوچار منٹ کو وہ چپ ہوجاتا لیکن دروازہ نہ کھلتا تو پہلے سے زیادہ جھلائی ہوئی آواز میں پھر شروع ہوجاتا’’وے پُھل نساء،وے پھل نساء‘‘۔ماموں با آواز بلندپھر ایک لمبی سی ’’ہوں‘‘کرکے کھکار دیتے۔ہم ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے اور گینڈ ا پھر کچھ دیر کے لیے چپ ہوجاتا۔اگلی مرتبہ جب وہ ’’وے پھل نساء،وے پھل نساء‘‘پکارتاتو ایسا لگتا کہ اس کا بس نہیں چل رہا کہ پھل نساء کو جان سے ماردے۔اور ایسا ہی ہوتا جب آدھا پون گھنٹے بعد وہ ظالم جاگتی تو گینڈااندر گھستے ہی اسے دھن کر رکھ دیتا۔لاتیں گھونسے،اللہ دے اور بندہ لے۔لیکن پھل نساء بھی پٹھانی تھی۔۔مجال ہے رونا تو درکناراس کی آنکھ میں ایک آنسو بھی آتا۔ پٹتی جاتی اور بولتی جاتی۔جتنا زور سے پٹتی اتناہی زور سے بولتی۔ ہمیںپھل نساء کے گینڈے شوہر پر بہت غصہ آتا۔دل چاہتااس کی تکہ بوٹی کردیں۔پھل نساء پر لگنے والے لاتیں گھونسے ہمیں اپنے اوپر لگتے محسوس ہوتے تھے اور اس کے گینڈے شوہر سے ایک بے کراں نفرت ہمارے رگ وپے میں سرایت کر جاتی۔دل چاہتا وہ گینڈا کہیں مل جائے تو نفرت سے اس پر تھوک دیں۔لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہتی جب صبح کو ہم دیکھتے کہ وہ دونوں چولھے کے پاس بیٹھے ساتھ ناشتہ کر رہے ہیں۔ان کی وارفتگی،والہانہ پن، جوش وخروش اور سر شاری،ہمیں حیرت بھی ہوتی اور پھل نساء پر شدید غصہ بھی آتا۔یہ تو عورت کی توہین تھی۔ہمارے حساب سے پھل نساء کو دوچار مہینے تو اس گینڈے کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے تھالیکن وہ کلکاریاں ماررہی تھی۔ اس دن گینڈارات کو آنے کے بجائے دوپہر میں ہی آجاتا۔اس کے دونوں ہاتھوں میں پھل فروٹ اور نہ جانے کس کس چیز کے تھیلے ہوتے۔پھل نساء دروازہ کھول کر اسے دیکھتی تو کھِل اٹھتی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے سے ان کے قہقہوں کی آوازیں آنے لگتیں۔ہمیں پھل نساء کارویہ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس وقت ہماری عمر دس بارہ برس ہوگی۔اس زمانے میں آدمی کو وقت سے پہلے جوان کردینے والے اینڈ رائیڈ موبائل فون تھے نہ سوشل میڈیا،یوٹیوب،فیس بک اور فضول ویب سائیٹس۔ہمیں کیسے پتا چلتا کہ میاں بیوی کی محبت کیسی بوالعجب اور پہلو دار ہوتی ہے۔میاں بیوی کیسے ایک دوسرے کی سانسوں اور زندگی میں جیتے ہیں۔
ہم زندگی تو حال میں بتاتے ہیں لیکن خوشی ماضی سے کشید کرتے ہیں۔پُھل نساء کی خوبصورتی کا ہم نے ابتدا میں جوخوش کن نقشہ کھینچا ہے پُھل نساء کے بارے میں وہ ہمارا آج کاخیال ہے۔آج وہ ہمیں ایسی دِکھتی ہے۔ورنہ جب ہم نے اسے پہلی باردیکھاتھا تو کچھ بھی محسوس نہیں ہوا تھاسوائے اس کے کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔ابا کے مرنے کے بعد جب ہم زندگی کے مکتب میں بیٹھے تو ہم نے وہ گھر بھی چھوڑ دیااور محلہ بھی۔ہمارے خوابوں کی تدفین کے لیے قدرت نے کراکری کی ایک دکان منتخب کی تھی۔ابا کی اس دکان کو ہماری ناتجربہ کاری اور غیرکاروباری طبیعت نے خاک کردیا۔ہماری ناکامی میں بڑادوش ’’بابو‘‘کاتھا۔شرابی وہ،زانی وہ،انٹرنیشنل جھوٹا اور مکار وہ لیکن سیل مین غضب کاتھا۔سال دوسال تو اس نے دکان اور کاروبارکو ایسا چمکایاکہ زندگی روشنی کی لکیر اور زیر لب گنگناہٹ بن گئی۔لیکن اپنی اس زیر لب گنگناہٹ کے ساتھ ساتھ ہمارے کانوں میںخواتین کی کچھ ایسی آوازیں بھی پڑنے لگیںجو لوگوں کو جزوقتی ٹھکانا اور خوشی مہیا کرتی تھیں۔رفتہ رفتہ ایسی خواتین کی آمدورفت کچھ زیادہ ہی ہوگئی۔ہمیں ایسا لگاجیسے ہم کرتو کاروبار ہی رہے ہیں لیکن کاروبار کی نوعیت کچھ بدل گئی ہے۔ ہماری دکان کراکری کے بجائے کسی اور ہی لین دین کی دکان سمجھی جانے لگی ہے۔ہم نے گھبرا کر بابو کو نکال دیا۔ ہمارا بال بال قرض سے یکجا ہوچکا تھا۔لیکن اس وقت تک زمانے کی اونچ نیچ اورکاروباری طور طریقوں کی بڑی مقدار ہماری طبیعت اور رگوں میں اتر چکی تھی۔ہم نے کپڑے کا کاروبار شروع کردیا۔لیڈیز کپڑے کا۔اس دوران سیما سے ہماری شادی بھی ہوگئی۔تب ہمیں پتا چلابیوی اتنی گہری مقنا طیسیت رکھتی ہے اور میاں بیوی کارشتہ روح کو یوں اپنے اندر سموتا ہے کہ نفرت ذرا بعد ہی بھاپ بن کر اڑجاتی ہے۔تب پھل نسا ء اور اس کے شوہرکارویہ ہماری سمجھ میں آنے لگا۔اور پھل نساء ہمارے ماضی کی ایک خوبصورت یاد بنتی چلی گئی۔
ایک روز دکان پر ہم گاہکوں میں الجھے ہوئے تھے۔بارش کے ایسے ہی حبس زدہ دن تھے۔ہمیں محسوس ہوا کوئی مانوس آواز ہمیں مخاطب کررہی ہے۔ جسے ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ہم آنکھیں بند کرکے پہچان سکتے تھے اسے ہم نے بمشکل پہچانا۔ وہ پھل نساء تھی۔لیکن یہ وہ پھل نساء نہیں تھی۔اسے دیکھنا آنکھوں کو تکلیف پہنچانا تھا۔اس کا گلرنگ چہرہ کُملاگیاتھا۔وہ نڈھال سی ہمارے سامنے بیٹھی تھی۔ ’’تمہارا گینڈا کہاں ہے‘‘ہم نے اس سے پوچھا۔ایک باریک سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھنچ گئی’’آپ اب بھی اسے گینڈا کہتے ہو‘‘۔’’ہاں بھئی گینڈے کو گینڈاہی کہیں گے‘‘ہم نے شوخی سے کہا ’’تم اکیلی ہو گینڈا پیچھے رہ گیا ہے کیا‘‘’’ہاں وہ پیچھے رہ گیا ہے بہت پیچھے۔کسی نے اسے گولی ماردی۔وہ مرگیا۔‘‘ پُھل نساء کی آواز پاتال سے آتی محسوس ہورہی تھی۔ افسوس اور حیرت سے ہماری نگاہ اٹھی کی اٹھی رہ گئی۔ایسا اداس چہرہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔