سندھ حکومت اور غریب محنت کش

235

تحریر :شکیل احمد شیخ
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو 9 سال سے زائد ہوگئے ہیں لیکن سندھ کے محنت کش اس کے نعرے کے مطابق روٹی کپڑا اور مکان دینے والی پارٹی آج یہ سب محنت کشوں سے چھین لینا چاہتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ چھین لیا گیا ہے وہ اس طرح کے پچھلے 10سالوں میں محکمہ محنت کی وزارت صرف من پسند اور اپنے کارندوں کے تحت چلائی جا رہی ہے محنت کشوں کو ریلیف دینے والا ادارے ورکرز ویلفیئر بورڈ کو عملاً تباہ کر دیا گیا ہے اس کی تمام اسکیمیں جن سے محنت کشوں کو کچھ ریلیف مل جاتا تھا اس کے ذریعے لیبر کالونیاں بنائی جارہی تھیں اور بچیوں کی شادی کے لیے کچھ امداد ملتی تھی اور محنت کشوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھ لیتے تھے اور اسکالر شپ کے ذریعے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی جدو جہد کرتے تھے وہ بھی عملاً ختم کر دیا گیا ہے اور یہ سب پچھلے کئی سالوں سے محنت کشوں میں تقسیم ہونے سے محروم ہے لیکن اس ادارے میں ملازمین کی کثیر تعداد اپنی تمام مراعات حاصل کر رہے ہیں بلکہ ویلفیئر فنڈ میں ہر سال کروڑوں روپے جمع ہو رہا ہے وہ صر ف اور صرف حکومت اپنے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کئی سالوں سے لیبر کالونیاں تعمیر کر کے ان کے مکانات محنت کشوں میں تقسیم کرنے کے بجائے ان پر قبضہ کروادیا گیا ہے اور اب یہ خالی بھی نہیں ہو
پارہے ہیں۔ اس طرح حکومت نے اپنے نعرے کے خلاف محنت کشوں کے مکانات عملاً چھین رکھے ہیں محنت کشوں کی بچیوں کی شادی امداد بھی روک کر فنڈ کا زیاں کیا جارہا ہے، بچوں کو اسکالر شپ کے ذریعے جو کچھ رقم ملتی تھی وہ محنت کش اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں استعمال کرلیتے تھے وہ بھی عملاً بند ہے۔ اس طرححکومت جو محنت کشوں کو بغیر کچھ محنت کیے اپنا نعرہ زندہ کر سکتی تھی لیکن اب یہ زرداری بھٹو کی پارٹی ہے اس سے محنت کشوں کو کچھ ریلیف نہیں مل سکتا۔ سندھ کا جاگیردار ، سرمایہ دار وڈیرہ ہر طرح کے ہتھکنڈے محنت کشوں، کسانوں اور ہاریوں پر زیادتیوں کے بہانے تلاش کرتا ہے اور کررہا ہے۔ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں انکی جگہ بڑے بڑے شاپنگ مال بنائے جا رہے ہیں اور وہ بھی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیے گئے ہیں تا کہ وہ بھی محنت کشوں پر ضرب لگائیں۔ یونین سازی بھی سازش کے تحت ختم کی جا رہی ہے، محکمہ محنت صنعت کاروں کے نرغے میں ہے اور ہر وہ اسکیم جس سے محنت کشوں کو کچھ مراعات حاصل ہوں وہ سندھ حکومت نے قانون سازی کر کے ختم کردیے ہیں، لیبر ڈیپارٹمنٹ میں اہل اور ایماندار افسران کا کال پڑا ہوا ہے کئی پوسٹیں کافی عرصہ سے خالی ہیں اور جونیئر افسران OPS پر کام کر رہے ہیں یا پھر ایک افسر کے پاس کئی کئی چارج ہیں جن سے کام چلایا جارہا ہے ،اس طرح سندھ میں لیبر ڈیپارٹمنٹ اور ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ عملاً ختم ہو کر رہ گئے ہیں یونین سازی اب چند اداروں میں رہ گئی ہے اور وہ بھی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہے، ہاری اور کسان تو ویسے ہی یونین سازی سے محروم
ہیں چوں کہ سندھ کے جاگیر دار ہی اسمبلی کے رکن بن کر وزیر بن جاتے ہیں اس لیے وہ کب چاہیں گے کہ سندھ کا ہاری اپنا حق طلب کرے۔ یہاں پر حضرت عمر فاروق ؓ کا قانون نافذ تھوڑی ہے، یہاں انگریز کا بنایا ہوا قانون ہے اس لیے ہاری کسان مزدور یہاں انصاف حاصل نہیں کر سکتے، یہ ہی وجہ ہے کہ محکمہ لیبر نے آج تک کسی صنعت کار وں کو ناراض نہیں کیا چاہے وہ علی انٹر پرائز کراچی ہی کیوں نہ ہو جہاں سیکڑوں مزدور لقمہ اجل بن گئے اور انصاف کے حصول کے لیے پریشان رہے لیکن کون سنتا ہے غریبوں کی! موجودہ حکومت کب تک محنت کشوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گی؟ ان شاء اﷲ وہ وقت بھی آئے گا جب ان سے بھی حساب کتاب لیا جائے گا، اس آس پر محنت کش برادری اُمید لگائے بیٹھی ہے، 2018 کے الیکشن میں محنت کش برادری کو سوچنا ہوگا۔ اس لیے آج سے ہمیں تہیہ کرنا ہوگا کہ ہم اب اپنا حق رائے دیں ایماندار مخلص اور سچے پاکستان کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجیں تاکہ ایوانوں میں جہاں سب کی نمائندگی ہے محنت کشوں کی بھی نمائندگی کے لیے قانون سازی کر سکیں ان شاء اﷲ ایسا وقت ضرور آئے گا اور ایک مرتبہ پھر محنت کشوں کو قانون کے مطابق تمام مراعات ملیں گی ۔ ان شاء اﷲ عنقریب ۔