فیملی میڈیسن کا ڈپلومہ کورس

224

zc_alamgirAfridiہمارے ہاں ویسے توہر شعبہ زندگی تنزلی اوربد انتظامی کاشکار ہے لیکن اگر معیاری خدمات اور اعدادوشمار کی زبان میں بات کی جائے تو صحت کا شعبہ دیگر شعبوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ابتری، بدنظمی اور قابل رحم صورت حال سے دوچار نظر آئے گا۔ اس تنزلی کی ویسے تو کئی وجوہات اور اسباب ہیںلیکن اس ضمن میں فی الوقت اگر کوئی بڑی اور فوری وجہ نظرآتی ہے تو وہ ہمارے ہاںوژن اور ترجیحات کے فقدان کے ساتھ ساتھ مادی اور افرادی وسائل کے استعمال میں کی جانے والی بے احتیاطی ہے جسے اگر کوتاہی اور نالائقی کہا جائے تو شایدبے جانہ ہوگا۔ اس تلخ حقیقت کا اندازہ ان اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں20 کروڑ کی آبادی کے لیے سارے ملک میں ایک لاکھ 76ہزار جنرل ڈاکٹرز اور تقریباً 37ہزار ماہر ڈاکٹرز (سپیشلسٹ) دستیاب ہیں جو اتنی بڑی آبادی کے لیے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ یہ بات اور بھی قابل غور ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق شعبہ صحت کا تقریباً 70سے 80 فی صد بوجھ پرائیویٹ سیکٹرنے اٹھایا ہوا ہے۔ اس طرح یہ بات بھی محتاج بیان نہیں ہے کہ ہمارے ہاں بالعموم سرکاری ہسپتالوں کے انفرااسٹرکچر اور وہاں تعینات طبی اور دیگر عملے وغیرہ کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ واضح رہے کہ شعبہ صحت میں اصلاحات کا دعویٰ ویسے تو ہر حکومت کرتی رہی ہے اور اس سلسلے میں بعض مواقع پر کچھ نہ کچھ اقدامات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن موجود ہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے پہلی دفعہ معاشرے کے انتہائی غریب اور پسماندہ افراد کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کے لیے جو بعض نمایاں اقدامات مثلاً پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام اور خیبر پختونخوا صحت سہولت پروگرام شروع کیے ہیں۔ ان دونوں پروگراموں میں پائی جانے و الی خامیوں کے باوجود ان نظاموں سے کم از کم معاشرے کا غریب طبقہ صحت کی کچھ نہ کچھ سہولت حاصل کرنے کے قابل ہوگیا ہے واضح رہے کہ نیشنل ہیلتھ پرگرام کے ذریعے 60 اضلاع میں تقریباً 31 لاکھ افراد کو صحت کی مفت سہولت فراہم کی جارہی ہیں۔ صحت سہولت پروگرام کے تحت خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں رہنے والے وہ افراد جن کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر اور اس سے بھی کم ہے کو بھی بعض ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں طبی خدمات کی فراہمی کی جارہی ہیں۔ ان اقدامات کے باوجودپاکستان کی آبادی کا 70فی صد حصہ دیہات اور دوردراز علاقوں میں آباد ہے اور ان علاقوں میں صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان کا معیاربھی انتہائی ناقص ہے اس لیے کسی بھی بیماری اور وبا کی شکل میں مریضوں کو طرح طرح کے پاپٹربیلنے پڑتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے پاکستان جیسے پسماندہ اور دیہی آبادی پر مشتمل ممالک کے لیے فیملی میڈیسن اورفیملی فزیشن پر مبنی صحت کے متبادل نظام کی سفارش کی ہے۔ یہ سفارش ایسٹ میڈیٹیرین ریجن کے 63 ویں سیشن میںکی گئی ہے۔ ایمرو کے اس سیشن میں کہا گیا ہے کہ فیملی فزیشن پرائمری ہیلتھ کیئر کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کے کردار کے حامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے 2030ء تک ہر دس ہزار کی آبادی پر تین فیملی فزیشنز کے تقرر کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تربیت یافتہ فیملی فزیشنز کی تعیناتی سے نہ صرف دوردراز کے پسماندہ علاقوں میں صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے بلکہ اس سے غریب آبادی کو معیاری سہولتوں کی فراہمی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ خطے کے کئی ترقی پزیر ممالک میں فیملی فزیشنز کا کامیاب تجربہ کیاگیا ہے جس کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے میںافغانستان، مصر، عراق، لبنان، مراکش، سعودی عرب،اردن اور سوڈان کی مثالیں نمایاں ہیں جہاں فیملی میڈیسن کے عنوان سے طبی تعلیمی اور تربیتی اداروں میںالگ تعلیمی اور تربیتی شعبہ متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت
چھ ماہ کے ڈپلومہ کورس سے لے کر دو اور چار سال تک کے ڈگری پروگرام بھی شروع کیے گئے
ہیں۔ ان کامیاب تجربات کی روشنی میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں بھی فیملی میڈیسن کا ڈپلومہ کورس شروع کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس کورس کی افادیت اور مقاصد واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جملہ جزیات اور اہداف طے کرنے کے لیے گزشتہ دنوں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے زیر اہتمام عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے فیملی میڈیسن کی دوروزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میںوفاق، چاروں صوبوں، گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر سے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کے علاوہ مسلح افواج، آغاخان یونیورسٹی کراچی، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور اور مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے ماہر ین طب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مذکورہ کانفرنس میں شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں صحت کے مسائل کو فیملی فزیشنز کی مدد سے باآسانی حل کیاجا سکتا ہے۔ کانفرنس کی سفاشات کی روشنی میں پائلٹ پروگرام کے تحت کے ایم یو میں ایک سال کا ڈپلومہ کورس شروع کرنے کی منظوری بھی دی گئی جب کہ متذکرہ کورس میں داخلے کے لیے ایم بی بی ایس اور ہائوس جاب کے علاوہ پی ایم ڈی سی کے ساتھ رجسٹریشن کی کم از کم شرط رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ یہ کورس چارماڈیولز پر مشتمل ہو گا جن میں بچوں اور خواتین کی صحت، امراض قلب، سینہ، ای این ٹی، امراض چشم، سرجری، ہیما ٹالوجی، زخموں، خون اور نفسیاتی امراض سے متعلق بنیادی تعلیم اور تربیت دی جائے گی۔ عالمی ادراہ صحت کے مطابق اس وقت پاکستان کو کم از کم 60 ہزار فیملی فزیشنز کی ضرورت ہے جن کی تعلیم وتربیت متعلقہ اداروں کے لیے یقینا ایک بڑا چیلنج ہے۔ توقع ہے کہ کے ایم یو میںپائلٹ بنیادوں پر فیملی میڈیسن ڈپلومہ پروگرام کا آغاز نہ صرف فیملی فزیشنز کی کمی کے ازالے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ سے ہماری دیہی آبادی کو صحت کی بہتر اور معیاری سہولتیں بھی دستیاب ہوسکیںگی۔