’’عید ملن اور محلے داری‘‘

361

اسماء صدیقہ
السلام علیکم، عید مبارک بھئی دو قدم پہ تو گھر ہے مگر عید پہ نہ ملنے کی جیسے قسم کھالی ہے تم نے شکل تک دیکھنے دکھانے کی روادار نہیں رہیں، ایسی بھی کیا بے مروتی زارا۔ زارا کی پڑوسی طلعت باجی قریبی کلینک کے پاس ہی تھیں وہ سر راہ ہی شکوہ کررہی تھیں۔
سلام اور مبارک باد کے بعد زارا کھسیانی سی ہنسی ہنسی پھر اس نے بتایا کہ طلعت باجی پہلے تین سے چار دن تو میکے سسرال کی خاندانی دعوت اور جوابی دعوت میں فرصت نہ مل سکی پھر اچانک سے دونوں بچوں کی طبعیت خراب ہوگئی۔ دراصل مرغن کھانوں کی اتنی عادت نہیں ہے نا بس اب ڈاکٹر کیے یہاں کے چکر لگ رہے ہیں۔ آپ سنائیں آپ بھی کچھ بیمار لگ رہی ہیں۔ زارا کہہ رہی تھی۔
ارے ایسی ویسی بخار سے چار دن نڈھال ہوگئی ہوں چلا تک نہیں جارہا تھا ابھی بیٹا بائیک پر چھوڑ کر گیا ہے دیکھو رمضان بھر تو تراویح میں ملاقات رہی مصروفیت کے باوجود دو گھڑی عید کے لیے مل لیتے تھے۔ چند سالوں سے وہ بھی رسم ختم ہورہی ہے۔ فرمائشیں رشتہ داروں کی نخرہ بازیاں، خاطر مدارارت میں ہمسائے مان جاتے تو جیسے اجنبی ہوگئے ہیں۔طلعت کہہ رہی تھیں۔
ہارون کی بڑی باجی کے یہاں دعوت میں عید کے دوسرے دن چار سے پانچ ڈشز تھیں۔ یخنی پلائو، گلاوٹی قیمہ، کڑاہی، شیر سویاں اور شامی کباب اوپر سے کیک اور مٹھائی الگ، بچے گھر میں کھاتے نہیں مگر وہاں ہلے گلے میں ڈٹ کر ایسا کھاتے رہے جیسے کل سے فاقہ کررہے ہوں، بعد میں اُن ہی کے بچے نے بھید کھولا کہ ان کے تایا کی دعوت ایک روز پہلے تھی تو کڑاہی اور شامی کباب اُس سے بھی پہلے کے تھے۔ ظاہر ہے تب ہی ایک بچے کو بدہضمی اور دوسرے کو بخار نے جکڑ لیا، ڈشز کی تعداد بڑھانے کے چکر میں بھائی کے بچے بستر پہ پڑ جائیں کسی کو کیا؟‘‘ زارا نے عید کہانی اور اس کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے یہاں بھی پاگلوں کی طرح گزری ہے عید میں تو کبھی میکے کبھی سسرال کی خاطر مدارات میں چولہے کے ساتھ چولہا بن کر رہ گئی، گرمی بھی اب کے کیا غضب کی پڑی تھی توبہ توبہ اس پہ روز تین سے چار ڈشز لازمی بنائو ہر ایک کی الگ پسند، بڑی مشکل سے تیسرے دن شام کے بعد اماں کے یہاں نکلے ابھی تین گھنٹے گزرے نہیں کہ پتا چلا مہمان آرہے ہیں بس بھاگم بھاگ گھر پہنچے اور مہمان داری نمٹاتے رہے۔ رات ایک بجے تک سلسلہ چلا، چوتھے دن تھکن کے مارے بخار ہوگیا بس عید اسی میں گزری‘‘ طلعت بھی یہی کہانی دہرا رہی تھیں مصروفیت کی کہانی جہاں پڑوس کے لیے فرصت نہیں ہوتی۔
واقعی عید اب صرف فیملی اور عزیز واقارب تک محدود ہو کر رہ گئی ہے پڑوس کا ذرا برابر حصہ بھی غائب ہے۔ تقابلی دعوتوں کی ریس لگی ہوئی ہے جہاں کثرتوں کی خواہش ہے، لذتوں کی دوڑ ہے مگر ہوس کا پیٹ بھلا کب بھرا ہے۔
سوچیے عید کی گہما گہمی دس سے 15 سال پہلے بھی تو تھی نامگر ہر اک کے لیے نہ سہی قریبی دو چار گھروں کے لیے گنجائش نکل ہی آتی تھی ایک دوسرے سے تحائف، عیدیوں اور ڈشز کے تبادلے ہو ہی جاتے تھے، مبارک بادیں بھی چلتی تھیں دُعائیں رمضان کے ساتھ عید کا بھی حصہ تھیں۔ مگر اب تو یہ حال ہے کہ جمعدار کی عیدی توبہ ہرحال ’’ہے‘‘ اور ماسی کی بھی ہے اور زور و شور سے ہے۔ لینے والوں میں دھوبی بھی شامل ہے۔ میکے سسرال والوں کی مہمانداریاں، آنا جانا تین دن تو کہیں نہیں گئے، باقی دور کی رشتہ داریاں پہلا تین ڈے مگر پڑوسی عید پر اجنبی سمجھے جانے لگے ہیں۔
گویا گردو پیش سے بے خبر رہ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک بھول رہا ہوتا ہے کہ عید تو دوسرے کی بھی ہوتی ہے۔ حالاں کہ خوشی میں نذر اُتاری جاتی ہے، مستحقین کو کچھ نہ کچھ دے کر خدا کی رضاکی کوشش ہوتی ہے مگر وہ جو چند روز پہلے تک قرآنی اور روحانی ماحول میں محبتوں کے سلام بانٹتے تھے باہم سلام عید اور مبارک بادیوں سے محروم ہیں۔ چوں کہ رشتہ داری کی طرح محلے داری نبھانا خواتین ہی کا کام ہوتا ہے یا سمجھا جاتا ہے خصوصاً لین دین تو ان ہی کا ہنر ہوتا ہے اس لیے اس روٹھی روایت کو منا کر لانے کی کوشش کی ذمے داریاں ان ہی کے کاندھوں پر ہے۔
بہت اچھی بات ہے قرابت داری نبھائیے، دستر خوان سجائیے، کھلائیے اور کھائیے مگر اعتدال کے ساتھ قرآنی ماحول کا پہلا اظہار اور پہلا تقاضہ دکھاوے اور مقابلے کی دعوتوں سے دور رہنا ہے، ڈشز کی کثرتیں اسکرین پر تو اچھی لگتی ہیں مگر نیت نہیں بھرنے دیتیں باہم شکوہ پھر بھی بچا رہتا ہے اور اس سارے کام جھام میں وہ لوگ کٹ جاتے ہیں جن کے حقوق کی تاکید جبریل امینؑ نے رسول اللہؐ سے اتنی زیادہ اہمیت کے ساتھ کی کہ آں حضرتؐ نے خیال کیا کہ شاید اللہ تعالیٰ پڑوس کے لیے وراثت کا حق بھی رکھ دیں گے۔ چلیے پہلے روز زیادہ نہ سہی جب دستر خوان بچھائیے تو دو سے چار گھروں میں بچوں کے ہاتھ کچھ نہ کچھ بھجوادینے میں کیا چلا جاتا ہے۔ اگر پڑوسی غریب اور ضرورت مند ہو تو چاند رات ہی کو حسب توفیق سویوں اور چاکلیٹ کے پیکیٹ، مٹھائی، نمکو اور مہندی، چوڑیوں کے تحائف بھجوائے جاسکتے ہیں یہ آپ کی خوشی کو قائم رکھنے اور بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ چاند رات کو سینڈل، چوڑیوں اور مہندی لگوانے کے لیے کئی گھنٹے باہر گزارنے کا چلن بہت عام ہوگیا ہے مگر صبح عید نہ خواتین کے لیے عید گاہ جانے کا کہیں بھی نہ چلن ہے نہ ہی انتظام بلکہ ہم سب کو اس مصروفیت کے وقت نکلنا معیوب اور بے تکا محسوس ہوتا ہے مگر مستند احادیث سے ثابت ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے بہ اصرار عورتوں کو بھی خوشی اور رحمتوں کی اس محفل میں شرکت کی تاکید کی ہے، حتیٰ کہ مخصوص ایام میں بھی عورتیں الگ تھلگ ہو کر ہی اس میں ضرور شرکت کریں اس سے ہمسائی خواتین کے باہم میل ملاپ کا حکم واضح نظر آتا ہے۔
اگر یہ بھی مشکل ترین لگتا ہے تو عید کے تین یا چار دن بعد یا ہفتہ بھر بعد ہی ایک دن پڑوس کے لیے ضرور رکھیں اس لیے کہ رمضان المبارک کی محنتوں اور ریاضتوں کا حاصل تقویٰ ہے جو کہ ہر طرح کے معاملات اور تعلقات کی درستگی کے لیے مطلوب ہے۔ بس تھوڑی سی کوشش سے ایک اچھی پُرانی روایت دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے ورنہ گردوپیش کی حق تلفیوں سے شوال المکرم کی بے تکوی ہوجاتی ہے اور لامحالہ یہ ماہ مبارک بھاری پڑ جاتا ہے خوشی جو مشکل سے کبھی آجاتی ہے تو راسی نہیں آتی کبھی نظر لگ جاتی ہے کبھی بہتات کے باوجود عجیب سی تنگ دلی کے رویے نظر آتے ہیں، عجیب سی قلت محسوس ہوتی ہے۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا ازلی دشمن انسانی تعلقات کو بگاڑ کر خوش ہوتا ہے انسانوں سے دولت اور حکومت چھین لینے سے زیادہ کامیابی اُس کو مسرت چھین لینے سے ہوتی ہے اور یہ مسرت ماہ رمضان کا ثمرہے اس محنت کی کمائی کو اپنے ہمسائیوں کو نظر انداز کرکے ضائع مت کریں اور اپنی خوشیوں کو قائم رکھنے کا سامان کرلیں۔ یہ تحریر پہنچنے تک شوال رخصت ہورہا ہوگا ایک لمحے کا بھی کچھ پتا نہیں عید کے ڈوبتے ہوئے چاند ہی میں باہم عید مل لیں کہ یہ قرب الٰہی کا تقاضا ہے اور اگلے برس تک یہ شرط زندگی ملن کی پرانی روایت کو زندہ کرلیں۔