آپ ؓ کی ذاتِ اقدس میں مسلم خواتین کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے
کلیم چغتائی(گزشتہ سے پیوستہ)
اسی موقع پر بہت سے دیگر احکام نازل ہوئے جن کا مقصد معاشرے سے بے حیائی کو دور کرنا اور انسان کے فطری تقاضوں کی تکمیل میں آسانیاں پیدا کرنا تھا ۔ قدیم زمانے میں طلاق کی کوئی حد مقرر نہ تھی ۔ شوہر طلاق دیتا اور پھر کچھ عرصے بعد رجوع کر لیتا ۔ ایک عورت اس طرح کی شکایت لے کر حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی ، آپ ؓ نے حضور اکرم ﷺ کی عدالت میں یہ معاملہ پیش کیا ،اس پر سورۂ بقرہ کی29 ویں آیت نازل نازل ہوئی جس میں مرد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیوی کوصرف 2 طلاقیں دینے کے بعد رجوع کر سکتا ہے اس کے بعد اسے چاہیے کہ یا تو بیوی کو اچھی طرح رکھے یا خوبی کے ساتھ رخصت کر دے ۔
آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ ؓ کو بہت محبوب رکھا کرتے تھے ، ایک بار ایک سفر میں حضرت عائشہ ؓ کا اونٹ بدک کر بھاگنے لگا،حضور اکرم ﷺ بے قرار ہو گئے ۔ ایک بار حضرت عمرو بن العاص نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا ، ’’ آپ ﷺ دنیا میں سب سے زیادہ کسے محبوب رکھتے ہیں؟‘‘ فرمایا’’عائشہؓ کو‘‘ ۔ عرض کیا ’’ مردوں کی نسبت سوال ہے ۔ ’’’فرمایا، ’’عائشہ ؓ کے باپ کو ۔ ‘‘ (صحیح بخاری)۔ حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کے اس غیر معمولی انس کو دیکھتے ہوئے حضرت عمر ؓ آپ ؓ کا زیادہ خیال رکھا کرتے تھے ۔ ایک بار عراق کی فتوحات میں موتیوں کی ایک ڈبیا آئی ، موتیوں کی تقسیم دشوار تھی ، حضور عمر ؓ نے صحابہ کرام ؓ سے کہا کہ آپ ؓ لوگ اجازت دیں تو میں یہ موتی ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کو بھیج دوں ، وہ آنحضور ﷺ کو زیادہ محبوب تھیں ۔سب نے خوشی سے اجازت دے دی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے متعلق خود رسول اکرم ﷺ اللہ کی زبان مبارک نے ارشاد فرمایا،’’عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر ۔ ‘‘(صحیح بخاری)۔(ثرید ایک کھانا ہے ، جو گوشت اور روٹی کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے ) آپؓ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو بشارت دی کہ وہ حضرت عائشہ ؓ کو اپنی زوجیت میں لیں ، صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آں حضرت ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز آپ ﷺ کے سامنے پیش کر رہا ہے ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ، یہ کیا ہے ۔ جواب ملا ، یہ آپ ﷺ کی زوجۂ محترمہ ہیں ۔ آپﷺ نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہ ؓ تھیں ۔ حضرت عائشہ ؓ کو اللہ یہ نے شرف بھی عطا فرمایا کہ آپؓ کے سوا اور کسی کے بستر پر حضور اکرم ﷺ پر وحی نازل نہیں ہوئی ۔ جب سورۂ بقرہ اور سورۃ النسأ نازل ہوئیں تو حضرت عائشہ ؓ حضور اکرم ﷺ کے پاس موجود تھیں ۔ آپ ؓ کو یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ حضرت جبرئیل ؑ نے آپ ؓ کو سلام کہا اور حضرت عائشہ ؓ نے حضرت جبرئیلؑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو یہ افضلیت بھی عطا ہوئی کہ آپ ؓ تمام امہات المؤمنین میں واحد کنواری خاتون ہیں جنہیں نبی اکرم ﷺ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا آپ ؓ بہت سنجیدہ ، فیاض ، قانع ، عبادت گزار اور رحم دل تھیں ، اپنی ذات پر آپؓ بہت کم خرچ کرتی تھیں ، پہننے کے لیے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں، کبھی کبھی زعفران میں رنگ کر کے کپڑے زیب تن فرما لیا کرتی تھیں ، سرخ کرتا اور سیاہ رنگ کی اوڑھنی بھی استعمال کرتی تھیں ۔ کبھی کبھی زیور پہنا کرتی تھیں ، کبھی کبھی یمن کا بنا ہوا ہار گلے کی زینت بنتا تھا ۔
آپ ؓ نے بہت سے بچوں کو گود لے کر پرورش کی ، کئی یتم بچوں کا خرچ برداشت کیا ۔ ایک انصاری لڑکی کی پرورش کی اور بیاہ کیا ۔ حضرت اسماء ؓ( ہمشیرہ ) کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو تو آپ ؓ نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بھی آپ ؓ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ حضرت محمد بن ابی بکر ؓ کی صاحبزادیوں کو لے کر آپ ؓ نے پالا اور پھر ان کی شادیاں کیں ۔
ایک بار حضرت معاویہ ؓ نے ایک لاکھ درہم بھیجے ، آپ ؓ نے شام ہوتے ہوتے ساری رقم محتاجوں میں بانٹ دی ۔ اس دن آپ ؓ کا روزہ تھا ۔ ایک بار حضرت ابن زبیر ؓ نے ایک لاکھ کی رقم بھیجی ۔ ایک طبق میں رقم رکھ دی اور بانٹنا شروع کر دی حتیٰ کہ طبق خالی ہو گیا ، اس دن بھی آپ ؓ روزے سے تھیں ۔ ایک اور مرتبہ ، آپ ؓ کا روزہ تھا ، دروازے پر کسی سائلہ نے صدا دی ، گھر میں صرف ایک روٹی تھی وہی دے دی ۔ خادمہ نے عرض کیا ، شام کو افطار کس سے کیجیے گا؟ شام ہوئی تو کسی نے بکری کا سالن بھیجا ۔ خادمہ سے فرمایا: دیکھو اللہ نے تمہاری روٹی سے بہتر چیزبھیج دی ۔
آپ ؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد67 ہے ۔ علمی حیثیت سے حضرت عائشہ ؓ کا مقام انتہائی بلند ہے ۔ ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، ہم ( صحابہ کرام ؓ) کی کوئی ایسی مشکل بات کبھی پیش نہیں آئی جس کو ہم نے حضرت عائشہ ؓ سے نہ پوچھا ہو ، اور ان سے اس کے متعلق کچھ معلومات نہ ملی ہوں ۔ عطا بن رباح ؒ مشہور تابعی ہیں ۔ مستدرک میں آپ ؒ کا یہ بیان نقل کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سب سے زیادہ فقیہ اور سب سے زیادہ صاحب علم تھیں ۔ امام زہری ؒ کا کہنا ہے کہ حضرت عائشہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں ۔ بڑے بڑے صحابہ کرام ٓؓ ان سے مسائل پوچھا کرتے تھے ۔ صحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے صاحبزادے ابو سلمہ ؒ تابعی ہیں ۔ فرماتے ہیں ۔ ’’ میں نے رسول اللہ کی سنتوں کا جاننے والا ، آیتوں کی شان نزول اور فرائض کے مسئلے کا واقف کار حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر کسی کو نہ دیکھا ۔ ‘‘
حضرت عائشہ ؓ نے اپنے ایک غلام ابو یونس سے قرآن پاک کی کتابت کروائی تھی ۔ آپ ؓ ہر مسئلے کے جواب کے لیے پہلے قرآن پاک سے رجوع فرماتی تھیں ۔ آپ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے جو احادیث روایت کی ہیں ان کی تعداد 2210 ہے ۔ ان میں سے 1286 احادیث ایسی ہیں جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں شامل ہیں ۔ 54 ایسی احادیث ہیں جو صرف صحیح بخاری میں ہیں اور 58 ایسی ہیں جنہیں صرف صحیح مسلم میں شامل کیا گیا ہے ، بقیہ 174 احادیث دونوں کتب میں مشترک ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ نے جو 2210ء روایات فرمائیں ان کی ترتیب و تدروین کا کام ہجرت کے سو سال بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں کیا گیا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ جب خلیفہ بنے تو مدینہ منورہ میں ابو بکر بن عمر بن حزم الانصاری ؒ ، قاضی ( جج) کے منصب پر فائز تھے
(جاری ہے)