یہ تو ہونا تھا

212

Edarti LOHاسٹیٹ بینک نے مالیاتی پالیسی کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق 2017ء کے دوران خسارہ 12.1ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ ملک کو توازن ادائیگی میں بھی قلیل مدت چیلنجز درپیش ہیں۔ اسی طرح رواں مالی سال مہنگائی کی شرح بھی ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ فی صد رہنے کا امکان ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کے حوالے سے مالیاتی پالیسی دیتے ہوئے پریس کانفرنس میں بتایاکہ اسٹیٹ بینک نے برآمدات بڑھانے پر زور دیا ہے۔گورنر نے انکشاف کیا کہ برآمدات گزشتہ چار ماہ کے دوران تین سطح تک گر گئی ہیں۔ یہ نہایت قابل غور بات ہے اس کے سبب توازن ادائیگی بھی متاثر ہوا ہے۔ اس پر ذرا غور کریں تو گزشتہ چار ماہ وہ ہیں جن میں پاناما کیس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں مقدمے کی مسلسل سماعت، جے آئی ٹی کی تشکیل، جے آئی ٹی کی کارروائیاں حکومت کی جانب سے دلائل، جوابی حملے، کاغذات کی تیاری، ہیر پھیر وغیرہ سب کچھ شامل تھا۔ تو پھر ملک کے اہم ترین معاملات بشمول برآمدات کی طرف توجہ کون دیتا۔ جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار خود بھی الجھے ہوئے تھے۔ دوسرا بڑا سبب اس دوران بجلی کا بحران تھا۔ بیشتر بڑی برآمدات کراچی اور فیصل آباد کی ہیں اور دونوں جگہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور عدم دستیابی نے صنعتوں کا بھٹہ بٹھادیا۔ کراچی میں تو خود حکومت کے حصے دار صنعتوں کو تباہ کرنے پر تلے رہتے ہیں اس پر کے الیکٹرک نے سب ہی کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی یہ خاصیت ہے کہ وہ سہ ماہی یا سالانہ رپورٹوں میں خرابی کی نشان دہی بھی کردیتا ہے اور علاج بھی تجویز کرتا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ خرابی کا علاج جس کے پاس ہے وہی خرابی کا سبب بھی بنا ہوا ہے یعنی حکمران۔ جب حکمران ہی خرابی کا سبب ہوں تو وہ علاج کیسے کریںگے۔ اس رپورٹ میں بھی گورنر اسٹیٹ بینک نے ان مسائل پر جلد قابو پانے کی تجویز دی ہے۔ لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کیونکہ ابھی پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ ہے۔ جب تک فیصلہ آنہیں جاتا اور حکمران سزا یاب یا کامیاب نہیں ہوجاتے اس وقت تک کوئی قومی معاملہ بھی آگے بڑھتا نظر نہیں آتا۔ اسٹیٹ بینک نے ایک اور خطرناک امر کی جانب بھی نشان دہی کی ہے اور وہ ترسیلات زر میں کمی ہے۔ اس کے دو اسباب ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ لوگوں نے بیرون ملک سے رقم بھیجنے کا رجحان کم کردیا ہے یا پھر وہ حکومت اور اس کے ذرائع پر اعتماد نہیں کرتے اور ہنڈی وغیرہ سے رقم بھیجنے لگے ہیں، ہوسکتا ہے اس کا سبب بھی پاناما ہو۔ کیونکہ میڈیا کے ذریعے پاکستان کی حکومت کے خلاف ایسی فضا بنائی گئی ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے سب کے سب صرف کرپشن کررہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کرپشن کرنے والے کرپشن کررہے ہوںگے لیکن کچھ نہ کچھ کام بھی چل رہے ہیں۔ تاہم جو صورتحال اسٹیٹ بینک نے بیان کی ہے وہ ملک کے سیاسی بحران کا منطقی نتیجہ ہے البتہ جس قسم کا بحران ہے اس تناظر میں صورتحال اتنی خراب نہیں ابھی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کو ہمارے حکمران سنجیدہ نہیں لیتے بلکہ اسے محض پریس کانفرنس کے طور پر شائع ہونے تک اہمیت ملتی ہے حالانکہ اس رپورٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے اسباب پر تحقیقات کا بھی ذکر ہے اور اسٹیٹ بینک کے دفاتر میں دو ارب ڈالر کی کمی کا بھی انکشاف کیا ہے۔ اگرچہ یہ سارے معاملات اعداد و شمار کے ہیں لیکن یہ اشاریہ بھی ہوتا ہے اس سے بہت واضح ہورہاہے کہ گزشتہ چار سے چھ ماہ کے دوران ملکی معاشی امور اور برآمدات وغیرہ ترسیلات زر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر جیسے معاملات پر حکومت کی نظر نہیں رہی ہے۔ ویسے تو حکومتوں کی ترجیحات ہی کچھ اور ہوتی ہیں لیکن کم از کم یہ امور معمول کے مطابق ان کے سامنے ضرور آتے رہتے ہیں۔ ایک اور اہم بات رواں سال مہنگائی کے ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ فی صد رہنے کی ہے اس حوالے سے اسٹیٹ بینک سمیت تمام اداروں کے اعداد و شمار اور تجزیے پاکستان میں ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں۔ خواہ رمضان المبارک میں مہنگائی کا معاملہ ہو یا قیمتوں میں اضافے کے امکانات کا ذکر ہو۔ مختلف درجوں میں بیٹھی مافیائیں ہر سطح پر قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہیں۔ سرکاری کاغذات میں جو قیمتیں درج ہوتی ہیں رپورٹوں میں ان ہی کی بنیاد پر تبصرہ ہوتا ہے حقیقی صورت کچھ اور ہوتی ہے۔ بتایاجاتاہے کہ مہنگائی 5 فی صد ہے لیکن یہ 15سے 20 فی صد ہوتی ہے۔ حال ہی میں رمضان کے دوران تمام ضروری اشیا پھل سبزیاں گوشت سب بے حساب مہنگے ہوئے، سرکار نے کچھ قیمتیں مقرر کردیں اور ان کی فہرستوں کے مطابق اعداد و شمار مرتب کردیے گئے۔ اس معاملے میں ہم اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کو بھی درست نہیں مانتے وہ جس مہنگائی کو ساڑھے پانچ فی صد سمجھ رہے ہیں وہ نیچے اتر کر 20 فی صد تک پہنچ جائے گی۔ بہر حال اسٹیٹ بینک نے امراض کی نشاندہی کردی ہے ان کے حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔