سینے میں چھپے راز

296

پروفیسر رشید احمد انگوی
جسد وطن عزیز تاریخ و عدالت کے جن تپتے ہوئے لمحوں سے گزر رہا ہے اس کی شدت اور حدت ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے۔ ’’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ کے مصداق ہر شخص اپنی کیفیت میں سے گزر رہا ہے۔ احساس و شدت کی یہ کیفیت فلم کی طرح دو قسم کے پردوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک چینلوںکی اسکرین دوسری سوشل میڈیا کی ہر لحظہ بدلتی سکرین۔دونوں کے پیچھے اغراض کی دنیائیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ جس طرح ستر سال میں بے سہارا اور بے آسرا انسانیت کی نسلوں کو تعلیم سے دور رکھ کر ووٹ سمیٹنے والوں کے آگے پیچھے ناچتے گاتے گلے پھاڑتے رہنے کاسبق سکھایا گیا اور اسے جمہوریت کا نام دیا گیا یہ درد ناک کہانی کل کی طرح آج بھی وقت کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ اس میں سندھ کے وڈیروں اور لٹیروں سے لے کر لاہور کے شعبدہ بازوں اور مکرو فریب کے شہزادوں تک برابر کے حصے دار ہیں۔ دونوں مثالیں جمہوریت کے دعوے داروں کے ظلم و جبر کی کہانیوں سے وابستہ ہیں۔ آج جب کتاب تاریخ کا صفحہ پلٹنے کو ہے تو لوٹ مار کے شہنشاہ اپنی نسلوں، بیٹوں بیٹیوں کو فرشتے دکھاکر مظلوم و مجبور و محکوم و مقہور ووٹروں کو حسب معمول سونے چاندی کی چڑیوں اور موروں کے رقص پر نعرے اور نغمے نچھاور کرتے نعرہ بازی جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ دنیابھر کے ملکوں کی بے نامی کی تہوں میںچھپی کمپنیوں کی لائنیں ایک جانب اور لٹیرے حکمرانوں کے ملکوں ملکوں پر پھیلے عظیم الشان پلازے، محلات، پہاڑوں جیسے سونے چاندی کرنسی کے انبار مگر بے چارے ووٹروں کو سونگھانے کے لیے جمہوریت کے نشہ آور نعرے و دھمالیں اور بھنگڑے۔ دونوں کی ایک ہی چال ڈھال خواہ باپ بیٹی کی قبروں کے مجاور ہوں یا لوہا پگھلانے والی فائونڈری کی لچھے دار اورنج ٹائپ افسانوںکے خالق و مالک کاریگر۔
ایک طبلچی مخالفین کو دھمکانے کے لیے ٹی وی پر کہہ رہاتھا کہ یہ لوگ میاں صاحب کو نہیں جانتے کہ وہ تو لوہے کو بھی پگھلا ڈالتے ہیں تو تم کیا چیز ہو۔ اس پر دل سے یہ صدا نکلی کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ کے مصداق جناب میاں صاحب کو لوہا پگھلانے کی ڈیوٹی پر واپس لاکر بٹھلائو کہ وہ اسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ قوموںکے مقدر سنوارنے کے لیے نہیں۔ خیر ہم اپنے اصل موضوع کی جانب
آتے ہیں کہ میاں صاحب کے سینے میں جن رازوں کا ہنگامہ برپا ہے ہم بھی اسی سلسلے میں عرض کرتے ہیں کہ ہاں آپ اب وہ راز اُگل ہی ڈالیں مگر پہلے وہ راز بتائیں جن کی درخواست ہم کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا ٹوکن نمبر پہلے آتا ہے۔ سب سے پہلاقومی راز تو یہ اگلیے کے آپ کو فائونڈری میں لوہا پگھلانے کے منصب سے اُٹھا کر پنجاب کی وزارت سنبھالنے کا قومی جرم جنرل جیلانی جیسے غاصب جرنیل نے سرانجام دیا کہ خود حکومت ضیاء الحقی ٹولہ بن کر قابض ہوا اور آپ پر عنایت فرما کر سیاست میں داخل کیا مگر یہ کام اس نے فی سبیل اللہ نہیں کیا۔ بلکہ اس کی مٹھی گرم کی گئی۔ تو اس نے آپ کو سیاست کی الف بے نہ جاننے کے باوجود ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر بنا ڈالا (اور آج تک قوم اس کے اثرات بھگت رہی ہے)۔ تو آپ پہلا قومی راز بیان فرمائیے کہ ’’شریف جیلانی‘‘ ڈیل کی حقیقت کیا ہے۔ دوسرا راز یہ اُگلیے کہ بھٹو صاحب نے بظاہر ایک مغربی رنگ میں رنگے لیڈر کے باوجود انگریز کے زمانے سے ہفت روزہ چھٹی اتوار کوختم کر کے جمعہ کو دن قرار دیا اور سالہا سال تک یہ معاملہ اس طرح رہا۔ اس سے پورے عالم اسلام کے ساتھ ایک ہم آہنگی پیدا ہوگئی۔ کیوں کہ ہفتہ وار چھٹی کے دنیا میں جو تین بڑے ماڈل، ہفتہ اتوار اور جمعہ کے ہیں یہ مذہبی تعلیمات کے زیر اثر ہیں۔ ہفتہ یہودیوں کی ہفتہ وار عبادت کا دن ہے، اتوار عیسائیوں کا اور جمعہ مسلمانوں کا۔ تو آپ اپنے سینے میںچھپا یہ راز بھی اُگل دیجیے کہ آپ کو جمعہ کی چھٹی ختم کرنے کا راز کیا ہے۔ بظاہر ایسا کر کے آپ نے اتوار کی چھٹی والی قوم انگریز کی خوشنودی حاصل کی جس کے وطن برطانیہ میں آپ کی شہرہ آفاق جائدادیں بنائیں۔ آپ تیسرا راز یہ اُگلیے کہ قیامِ پاکستان کے بعد روز اوّل سے علامہ اقبال کی سالانہ چھٹی کانظام جاری تھا مگر آپ کے حالیہ اقتدار میں یہ داغ بھی آپ کو نصیب ہوا کہ آپ نے بیک جنبش قلم اس کو ختم کر کے یومِ اقبال کو چھٹی منانا جرم قرار دے دیا۔ یہ آپ کا بہت بڑا ایکشن تھا اور ہمارے جیسے اقبالیے تو یہ بھی سوچتے ہیں کہ آج آپ جن مراحل سے گزر رہے ہیں اس میں ’’اقبال کی مار‘‘ بھی آپ پر ضرور پڑی ہوگی۔ از راہ عنایت یہ راز بھی اُگل دیجیے کہ علامہ اقبال کی سالانہ تعطیل ختم کرنے کا کریڈٹ آخر آپ نے کیوں کر لیا۔ ایسا کر کے آ پ نے کس کی خوشنودی کا اہتمام کیا۔ آپ یہ راز ضرور بتائیے کہ اقبال کے وطن میں اقبال کا ذکر مٹانے کے لیے چھٹی ختم کرنے کا فیصلہ آپ کو کہاں سے عطا ہوا۔ چوتھا راز تعلیم کی دنیا سے وابستہ ہے کہ پاکستان بنتے ہی لڑکوں اورلڑکیوں کے کالج ملک کے طول و عرض میں قائم ہوئے اور یہ نظام انتہائی کامیابی سے جاری رہا مگر آپ کے حالیہ دورِ اقتدار میں بہت سے کالجوں میں ایسا ہوا کہ خواتین اساتذہ کو بوائز کالجز میں لگا دیا گیا۔ بظاہر ملک کی کسی صوبائی یا بالائی اسمبلی نے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ موضوع اپنی جگہ کہ نوجوان لڑکوں کو خواتین اساتذہ کی شاگردی میں دینا کیوں ضروری تھا۔ آپ اپنے رازوں بھرے سینے میں یہ راز بھی افشا فرمائیے کہ یہ پالیسی کہاں سے اور کس کے ذریعے پہنچی۔ ملک کے اندر سے تو کوئی ایسا مطالبہ نہیں اُٹھا تو پھر یہ کہاںسے آیا۔ پانچواں راز بھی تعلیم سے وابستہ ہے جسے آپ کے سینہ سے اب باہر آ جانا چاہیے۔ پوری دنیا میں یہ حقیقت جانی اور مانی جاتی ہے کہ اسکول کی ابتدائی تعلیم صرف مادری زبان میں ہونی چاہیے اور ہمارے ہاں قومی اور مادری زبان کو بنیادی مرحلے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر آپ کی حکمرانیوں کا دور شروع ہوا تو انگلش میڈیم ادارے بنے اور تعلیم قومی فریضے کے بجائے تجارتی شعبہ سمجھ لی گئی۔ تاہم اہم ترین واقعہ یہ ہوا کہ ملک میںخصوصاً آپ کے اپنے صوبے میں پرائمری اسکول کی سطح پر لازمی انگلش میڈیم کا فیصلہ ہوا جو ملک کے مستقبل کے خلاف ایٹم بم سے بھی زیادہ مہلک فیصلہ تھا۔ تو آپ اپنے سینہ مبارک سے یہ راز بھی اُگل دیجیے کہ آخر اتنا بڑا فیصلہ آپ سے کس نے کروایا۔ وقت آ گیا ہے کہ آپ یہ قومی راز بھی اُگل دیں کہ قوم کو کچھ سمجھ میں آ سکے کہ آپ کے دورِاقتدار میں کس نوعیت کے اہم فیصلہ ہوئے۔ یقین جانئے کہ مذکورہ تمام فیصلے موٹر وے اور اورنج لائنوں کے مقابلے میں قومی اہمیت کے لحاظ سے ہزاروں گنا زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اب اسے اتفاق ہی کہہ ڈالیے کہ آپ کے اہم فیصلوں کے نتیجے میں قوم کو مغربی خصوصاً برطانوی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی کوششیں بہت معنی خیز ہیں۔ ظاہر ہے آپ تو لوہا پگھلانے اور جیلانیوںکو خریدنے کے علاوہ کوئی مہارت نہیں رکھتے تو یقینا برطانوی دماغوں نے بطور ایک نئے ’’لندنی شہری‘‘ آپ کی خدمات سے استفادہ کرنے کافیصلہ کیا اور ہفتہ وار اتوار کی چھٹی سے لے کر پرائمری اسکول کو انگلش میڈیم میں رنگنے اور کالج سطح تک مخلوط تہذیب برپا کرنے میں آپ کی شخصیت کو بخوبی استعمال کیا اس لیے کہ اب آپ نے اپنی نسلوںکے رہن سہن اور گھر بار کے فیصلے بھی مشرق کے بجائے مغرب سے وابستہ کر دیے۔ چھٹا راز یہ کہ مودی اور جندال سے اپنے تعلقات کی خود وضاحت کر دیجیے۔ قوم آپ کی شکر گزار ہوگی۔