غیر مارے یا اپنا، لہو مسلمانوں کا بہہ رہا ہے

301

حبیب الرحمن
مسلم دنیا اس وقت تاریخ کے بھیانک دور سے گزر رہی ہے۔ عرب ہو یا عجم، سب ہی تباہی و بربادی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ خون پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان اس وقت سخت ابتلا و آزمائش کا شکار ہیں لیکن وہ اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ آخر وہ اس کرب و بلا کا شکار کیوں ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھی گناہ گار مسلمانوں نے سچے دل سے اللہ سے رجوع کیا اللہ نے اسے اس طرح دیا کہ دنیا دنگ رہ گئی اور جب جب اس نے اس کے حکم کی خلاف ورزی کی اسے سخت پسپائی کا سامنا رہا۔ پاکستان کا بننا اور پھر پاکستان کا دولخت ہوجانا، 1965ء کی جنگ اور 1971ء کی جنگ، کیا یہ مثالیں اللہ کی تائید اور اللہ کی ناراضی کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں؟
میں اس بحث میں الجھے بغیر کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کے ساتھ کیا اور کیوں ہو رہا ہے، قارئین کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو خواہ غیر مسلم مار رہے ہوں یا خود مسلمان مسلمانوں کا خون بہا رہے ہوں، ہر دو صورت میں مرنے والے مسلمان ہی ہیں۔ مرنے اور مارنے والا دونوں کا ایک ہی نعرہ ہے ’’نعرۂ تکبیر اللہ اکبر‘‘ ان علاقوں کے سوا جہاں مارنے والا غیر مسلم ہو۔ خون مسلم نہایت سستا ہو چکا ہے۔ حق اور باطل میں امتیاز مشکل ہو چکا ہے۔ نام بے شک اسلام کا لیا جارہا ہے لیکن اس کے پیچھے ہوس اقتدار کے علاوہ اور کوئی شے دکھائی نہیں دیتی۔ میں ہر مسلمان سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ آخر خونریزی کا یہ سلسلہ تھمے گا بھی یا نہیں؟
’’گزشتہ سال کے اواخر میں انتہا پسند بدھسٹوں اور میانمار فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی جارحیت اور ظلم و تشدد سے لاکھوں مسلمان متاثر ہو، ہزاروں روہنگیا مسلمان جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں جن میں سیکڑوں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ لاکھوں افراد ہمسایہ ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ایک وفد نے پہلی بار انتہا پسند بدھسٹوں اور میانمار فوج کے حملوں سے متاثر ہونے والے مسلمان نشین علاقے راکھائن کا دورہ کرتے ہوئے متاثرہ روہنگیا مسلمانوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار فوج نے آپریشن کے دوران ہزاروں مسلمان مردوں کو زندہ جلانے کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد کو مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں قید کر رکھا ہے اور اب تک سیکڑوں روہنگیا مسلمان لاپتا ہیں‘‘۔ یہ تو وہ مسلمان ہے جو غیر مسلموں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ذرا دیکھیے یہ سب کچھ کیا ہے؟
گزشتہ کئی سال سے دہشت گرد تنظیم داعش کے زیر قبضہ عراق کے سب سے بڑے شہر موصل کو عراقی فوج نے مکمل آزاد کرا لیا ہے۔ عراقی فوج اور رضاکار فورس نے داعش کے مرکز پر کنٹرول حاصل کر کے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ نینوا آپریشن کے کمانڈر عبدالامیر یاراللہ نے بتایا ہے کہ موصل کی آزادی کے لیے کیے جانے والے آپریشن میں داعش کے پچیس ہزار جنگجو ہلاک اور چار سو سے زائد خود کش حملہ آوروں کو سیکورٹی فورسز نے نشانہ بنایا ہے جب کہ دہشت گردوں کی بائیس سو سے زائد گاڑیوں کو تباہ کیا گیا ہے جنہیں موصل کے مختلف علاقوں میں عراقی فورسز پر بم دھماکوں کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ آپریشن کمانڈر نے مزید کہا ہے کہ اس آپریشن میں داعش کے ایک سو تیس سے زائد ڈرون طیاروں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ صوبہ نینوا کی مکمل آزادی کے لیے آپریشن کا ’’چوتھا‘‘ اور آخری مرحلہ جلد شروع کر دیا جائے گا‘‘۔
اُ دھر عراق میں بھی چوتھے مرحلے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اِدھر پاکستان میں بھی ’’آپریشن خیبر 4 کی تحت ایک اور آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ جو اس آپریشن کو شروع کرنے والے ہیں وہ بھی کافر نہیں اور جن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے وہ بھی کلمہ گو ہیں؟ دونوں جانب سے مر کون رہا ہے؟ مار کون رہا ہے؟ کس لیے مار رہا ہے یا مر رہا ہے؟ اگر غور کیا جائے تو صرف اور صرف درمیان میں ’’نقطۂ نظر‘‘ کے فرق کے علاوہ اور کچھ نہیں جس کو نہ پہلا فریق سمجھنا یا سننا چاہتا ہے اور نہ دوسرا فریق یا اور کوئی بات بھی ہے؟
’’سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادی جہازوں نے سعودی عرب اور یمن کے سرحدی علاقے صعدہ میں پمفلٹ گرائے ہیں جن میں شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اس علاقے سے نکل جائیں۔ یہ پمفلٹ پرانے صعدہ میں گرائے گئے ہیں جو حوثی جنگجوؤں کا گڑھ ہے۔ حالیہ دنوں میں حوثی جنگجوؤں نے صعدہ سے سعودی عرب میں شیلنگ کی ہے جس میں دس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جاری فضائی کارروائی کے باعث 1200 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 600 عام شہری تھے۔ سعودی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ہمارا کام ان (حوثیوں) تک پہنچنا ہے جو ان حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور جو صعدہ میں چھپے ہوئے ہیں‘‘۔
آمنے سامنے کون ہوئے؟ جان دینے یا لینے کا مقصد و مدعا کیا ٹھیرا؟ کیا پہلے حکومت ’’اسلامی‘‘ تھی؟ کیا فتح و شکست کی صورت میں اللہ کا نظام نافذ ہو جائے گا؟۔ واللہ محض خون خرابے کے اور کیا ہے؟ کبھی اس پر ہر دو جانب سے سنجیدگی کے ساتھ سوچا گیا ہے؟ پھر کیسے یہ سمجھ لیا جائے کہ بظاہر جو ظالم ہے، وہ ظالم ہے؟ جو مظلوم ہے وہ مظلوم ہے؟
’’اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ عراق کے شمالی شہر موصل کے مختلف حصوں میں داعش نے ہزاروں شہریوں کو روک رکھا ہے اور انہیں خوراک، پانی اور ادویہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی امور کی رابطہ کار لیس گرینڈے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ موصل کے قدیم شہر اور تین دوسرے علاقوں میں اس وقت بھی تقریباً دو لاکھ افراد موجود ہیں۔ ان کے اس بیان سے ایک روز قبل ہی عراقی فوج نے موصل کے دریائے دجلہ کے مغربی جانب واقع حصے میں داعش کے خلاف ایک نئی کارروائی شروع کی ہے۔ مس گرینڈے نے بتایا ہے کہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے باہر نکل آنے میں کامیاب ہونے والے لوگوں نے وہاں ڈرامائی صورت حال کی اطلاع دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ شہریوں کو خوراک اور ادویہ کی شدید قلت کا سامنا ہے اور انہیں محدود مقدار میں پانی مہیا ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں صحت کی سہولتیں تو موجود ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کام بھی کررہی ہیں یا نہیں‘‘۔
یہ تو کچھ دور کی باتیں ہیں اب ذرا ایک نظر ’’جنت نظیر‘‘ کی جانب ڈالے لیتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
’’صدر آزاد جموں وکشمیر سردار محمد مسعود خان کی پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر عبد اللہ مرزوق الزھرانی سے ملاقات، مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال، تحریک آزادی کشمیر، آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی، مشرق وسطیٰ کی صورت حال، اسلامی تعاون تنظیم کے امور، امت مسلمہ کو درپیش مسائل اور باہمی دلچسپی کے دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر سردار مسعود خان نے سعودی سفیر کو بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں برھان وانی کی شہادت کے بعد نئی مزاحمتی تحریک میں اب تک 20ہزار افراد زخمی ہوئے، سیکڑوں نوجوانوں کو قابض فوج نے شہید کر دیا۔ تقریباً ایک ہزار نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی آنکھوں کو پیلٹ گن کے ذریعے زخمی کیا گیا۔ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نوجوان بصارت سے کلی طور پر محروم ہو چکے ہیں۔ ساڑھے آٹھ سو نوجوانوں کی بینائی جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے‘‘۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جہاں جہاں بھی نظر دوڑائی جائے، مسلمان سخت ابتلا و آزمائش کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپس کے اختلافات کا فائدہ دنیا خوب خوب اٹھا رہی ہے اور ہر جگہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں مسلمانوں کو ختم کرنے پر کمر بستہ ہیں لیکن یہ کہہ کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے اس لیے کہ دنیا کی ساری طاغوتی قوتیں استعمال ہم ہی کو کر رہی ہیں۔ جب تک ہم اس بات کو نہیں سمجھیں اور اسی طرح افتراق کا شکار رہیں گے، دنیا ہمیں ’’ٹشو پیپر‘‘ کی طرح استعمال کرتی رہی گی۔ تباہی سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں فرقہ فرقہ مت ہو‘‘۔