ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے پہلے مرحلے میں ہی سعودی عرب میں خلیج کے حالیہ تنازع کے حوالے سے بڑی کامیابی سامنے آئی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق تو ترکی کے نقطۂ نظر سے سب سے بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے کہ سعودی عرب قطر میں ترک فوجی اڈے کی موجودی پر رضامند ہوگیا ہے جب کہ دوسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ قطر کو پیش کردہ 13 میں سے سات شرائط بھی واپس لے لی ہیں۔ دونوں ملکوں کے رہنمائوں طیب اردوان اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے درمیان خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ترک صدر کی سفارت کاری کے نتیجے میں شاہ سلمان نے موقف میں نرمی کا فیصلہ کیا۔ طیب اردوان نے اس موقع پر سعودی عرب کے نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو نیا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ اس ملاقات میں ولی عہد بھی موجود تھے جن کے بارے میں کہا جارہاہے کہ قطر کے خلاف پابندیوں اور شرائط کے پیچھے وہی ہیں۔ لہٰذا اگر یہ اطلاعات درست ہیں کہ سعودی عرب ترک فوجی اڈے کی قطر میں موجودگی پر راضی ہے اور 7 شرائط بھی کم کردی ہیں تو پھر ترکی کے لیے قطر سے بقیہ 6 شرائط پر بات کرنا آسان ہوجائے گا۔ توقع ہے کہ اس پیش رفت کے بعد عرب ممالک قطر کے بائیکاٹ کے حوالے سے رویے میں تبدیلی کریںگے۔ اس صورتحال سے نقصان سراسر امت مسلمہ کا ہورہاتھا۔ بہر حال یہ خوش آئند امر ہے اگر یہ کام پاکستان کے حصے میں آتاتو زیادہ بہتر ہوتا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا پڑا ہے۔ ہر کوئی پاناما کیس میں الجھا ہوا ہے ملک کے اہم مسائل حل نہیں ہورہے ہر چیز موخر ہے تو امت مسلمہ کے مسائل پر توجہ دینا یا انہیں حل کرنا تو درکنار ان کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔ اس مرتبہ پھر ترک رہنما رجب طیب اردوان بازی لے گئے۔ ان کی شاہ سلمان سے ملاقات میں شام کے مسئلے پر بھی بات ہوئی ہے۔ یقینا مسلمان ممالک کے ایسے سنگین حالات میں سفارتی کوشش کے اچھے نتائج بھی نکلے ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے قطر کو تنازع کے حل میں تعاون کی پیشکش ہی ہوئی تھی لیکن وزیراعظم سعودی عرب جاکر اس معاملے پر بات کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اب بھی پاکستان اس معاملے میں اپنا وزن ڈالے اور ایک مرتبہ پھر اتحاد امت کی جانب پیش رفت کی جائے تو عالم اسلام کو تقویت ملے گی۔ آج کل جس طرح پورا مغرب اور عالم کفر مسلمانوں کے خلاف متحد اور سازشوں میں مصروف ہے اس کی روشنی میں تو او آئی سی کو فعال بناتے، مشترکہ منڈی، مشترکہ کرنسی، مشترکہ تجارتی لین دین پر بھی سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ 34 ملکی فوج تو بن ہی رہی ہے اس کو کسی اسلامی ملک کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے امت مسلمہ کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جائے تو مزید بہتری ہوگی۔ ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ عالم کفر مسلمانوں پر غالب ہے لیکن جب قرآن میں اﷲ نے بار بار وعدہ کیا ہے کہ مسلمانوں پر کفار کبھی غلبہ نہیں پاسکیںگے تو پھر مسلمانوں کو اطمینان رہنا چاہیے بس اﷲ کی شرائط پوری کرنے پر زور دینا ہوگا۔ یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ امت مسلمہ کے پاس کتنی مادی، معاشی اور فوجی قوت ہے اس سب سے بڑھ کر ایمانی قوت سے سرشار نوجوانوں کی بہت بڑی قوت موجود ہے اور یہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ خلیجی تنازع میں یقینا سعودی عرب اور ترکی کے کچھ مفادات بھی ہوںگے۔ قطر کے بھی کچھ مفادات ہوںگے جس طرح سعودی عرب نے 7 شرائط کم کی ہیں اسی طرح قطر بھی ایک قدم آگے بڑھائے اور اب یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ قطر اور سعودی عرب کسی طرح ایک میز پر بھی آجائیں۔ دنیا مذاکرات کی اہمیت کا اعتراف کرتی ہے محض ملاقاتوں سے بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں اصل چیز یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک اپنے مفادات کا تحفظ ضرور کریں لیکن اتحاد امت کے وسیع مقصد کو ضرور سامنے رکھیں۔