عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کا 3-2 کا فیصلہ سنا کر بہت اچھا کیا تھا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا، بجا کہ فیصلہ قانون کے مطابق نہ تھا مگر حب الوطنی کے عین مطابق تھا کو اگر وزیراعظم میاں نواز شریف کو ڈیٹول سے دھو دیا جاتا تو خانہ جنگی کا خدشہ تھا۔ تحریک انصاف سڑکوں پر آجاتی اور ملک کے مختلف حصوں میں دھرنے دیے جاتے۔ اب بھی میاں نواز شریف دودھوں نہیں نہلایا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ کی نشستوں پر براجمان لوگ پاکستانی ہیں وہ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا ایک عام پاکستانی ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب تک ’’مردار‘‘ نہیں نکالا جاتا کنواں پاک نہیں ہوگا سو، ’’مردار‘‘ کو نکالے بغیر پاکی کا تصور بھی مجرمانہ اقدام ہوگا۔ انہیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف قطر اور سعودی عرب کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ سعودیہ کی اپنی ڈیمانڈ ہے اور قطر کے اپنے مطالبات ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو دونوں ہی عزیز ہیں گویا معاملہ رونے اور پیٹنے کی حد میں آچکا ہے اور عدالت عظمیٰ اس صورت حال کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اگر میاں نواز شریف قطر کے مطالبات مان لیتے ہیں تو سعودی عرب کے حکمران اپنا ہاتھ ہی نہیں کھینچ لیں گے بلکہ آنکھیں بھی پھیر لیں گے جو پاکستانی معیشت کے لیے نیک شگون نہیں ہوگا۔ جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کو جدہ جانے کی اجازت اسی لیے دی تھی کہ سعودیہ نے مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ممکن ہے اب بھی یہی صورت حال ہو۔ بھیک ملنے والے دروازے سے زور آزمائی بہت مہنگی پڑتی ہے۔
سیاسی مبصرین کو اس کا اندازہ ہو یا نہ ہو مگر میاں نواز شریف اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ بہتر ہوگا کہ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں میاں نواز شریف کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے بجائے پاکستان کے مفاد کے بارے میں سوچیں۔ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور دیگر عوامی مسائل پر توجہ دیں، بعض نام نہاد قانون دان کہتے ہیں کہ قطری شہزادے کے خط کی کوئی اہمیت نہیں۔ شنید ہے حامد سعید کاظمی کے معاملے میں سعودی شہزادے کے خط کو بہت اہمیت دی گئی تھی حالاں کہ وہ خط جھوٹ کا پلندا تھا۔ پاکستانی قانون کی رو سے اگر گواہ زندہ نہ ہو تو عدالت اس کے بھائی یا بیٹے کی شہادت قلم بند کرلیتی ہے۔ ایسی ہی ایک شہادت کے دوران مخالف وکیل نے گواہ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ سرکاری ملازم ہے مگر مرحوم والد کی جانب سے گواہی دینے پر کوئی اعتراض وکیل نے کیا نہ عدالت نے کیا اور اب تو عمران خان نے بھی ایک خط پیش کردیا ہے۔ ن لیگ والے کہتے ہیں کہ اسے بھی گواہی کے لیے بلائو۔ عمران خان کا کہناہے کہ میرے اور نواز شریف کے معاملات کا کیا موازنہ ان کی کمپنی حرام میری حلال۔