یوں لگ رہا ہے کہ چین کے کشمیر پر سرگرم ہونے اور کچھ کھلے بیانات سے امریکا کوجنوبی ایشیا میں حاصل ایک اہم اور روایتی کارڈ چھن جانے کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔ اس لیے امریکا نے دوبارہ کشمیر پر پس پردہ دبائو کا استعمال کرتے ہوئے خفیہ مذاکرات کو بحال کرنے کے آپشن پر سوچنا شروع کیا ہے۔ امریکا نے نریندر مودی کے دورے کے موقع پر سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا تو اس پر پہلا سوال یہی اُٹھا تھا کہ کیا امریکا خود کو بھارت کے ساتھ کھڑا کر کے ثالثی کے لیے کردار کا ایک خلا پیدا کر رہا ہے؟ اور اس خلا کو کون پُر کرے گا؟۔ لامحالہ اس خلا کو پر کرنے کے حوالے سے چین کا نام ہی سامنے آرہا تھا اور چین نے بھی وقت ضائع کیے بغیر خود کو نسبتاً ایک سخت گیر ثالث کے طور پر پیش کرنا شروع کیا۔ جس سے شاید امریکی پالیسی سازوں کو غلطی کا احساس ہو نے لگا ہے اور وہ کشمیر پر خفیہ سفارت کاری کا ڈول ڈالنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
خفیہ سفارت کاری کا آپشن نوے کی دہائی میں امریکا نے ہی متعارف کرایا تھا اور اس کا پہلا تجربہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی قیادت اور اسرائیل کو بقائے باہمی کے ایک معاہدے تک پر آمادہ کرنا تھا۔ کئی برس کی کوشش کے بعد امریکا 1993 میں فلسطینی قیادت اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ’’معاہدہ اوسلو‘‘ کرانے میں کامیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد یہی تکنیک کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے اور پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ سب سے پہلے پاکستانی سیاست میں میڈان پاکستان کا امیج رکھنے والے میاں نوازشریف کو اس اپنے روایتی اور سخت گیر دائیں بازو کے حلقے سے الگ کر کے کچھ غیر روایتی اور نئے راستوں پر چلنے کی ترغیب دی گئی۔ بھارت میں اندر کمار گجرال اور میاں نوازشریف کو غیر سرکاری روابط پر آمادہ کرنے کی راہ پر ڈال دیا گیا پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا یہاں تک کہ میاں نوازشریف اور اٹل بہاری واجپائی کے درمیان خفیہ مذاکرات اس حد کامیاب ہوتے دکھائی دیے کہ معاملہ اعلان لاہور تک جا پہنچا۔ کارگل جنگ نے اس سارے تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔
پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت قائم ہوئی میاں نوازشریف کے سیاسی پس منظر اور روایتی حلقے کی طرح پرویز مشرف کا ماضی بھی سخت گیر اسٹیبلشمنٹ سے وابستگی کا حامل تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ زیادہ تیز رفتاری سے میاں نوازشریف کے راستے پر قدم بڑھانے لگے۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت امریکی حکومت اور این جی اوزنے سیمینارز اور مذاکروں کا اہتمام شروع کیا اور اس کا نقطہ ٔ عروج پاکستان میں پرویز مشرف کا زمانہ تھا جب حکومت پاکستان بھی پوری طرح اس عمل میں شریک ہو گئی اور پرویزمشرف کے دست راست طارق عزیز خفیہ مذاکرات میں شامل ہونے لگے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور امریکا کے درمیان دفاعی تصورات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ بھارت نے پرویز مشرف کی کوششوں کو مثبت جواب دینے سے گریز کیا جس کے ردعمل میں پاکستان میں بھی خفیہ مذاکرات اور کشمیر پر ایک کیمپ ڈیوڈ طرز کے سمجھوتے کے خلاف آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئیں اور یوں خفیہ مذاکرات کا دھاگا کمزور ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ پاکستان میں وکلا تحریک کا آغاز ہوگیا اور جنرل پرویز مشرف کا پائوں احتجاج کے اس دھاگے میں اُلجھتا چلا گیا۔ جو کشمیر پر خفیہ مذاکرات کو کامیابی سے انجام تک پہنچنے سے روکنے میں نوازشریف کے دور میں جو کام کارگل کی جنگ نے کیا تھا وہی کام پرویز مشرف کے دور میں وکلا تحریک نے کیا۔ وکلا تحریک کے بعد خفیہ مذاکرات کے تار ٹوٹ کر رہ گئے۔
خفیہ مذاکرات کی پس پردہ قوتوں کا خیال تھا کہ اس عمل کو جلد ہی عوامی حمایت حاصل ہوجائے گی اور اس دبائو کا مقابلہ دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کے بس میں نہیں ہوگا۔ یہ خیال خام ہی ثابت ہوا۔ عوامی دبائو نام کی کوئی چیز سامنے نہ آسکی۔ موم بتیوں والے بے چارے جو واہگہ سرحد پر کبھی منہ میں لڈو لیے موم بتیاں اُٹھائے دھمالیں ڈالا کرتے تھے۔ وقت کی گرد میں گم ہو گئے۔ تاریخ کا دھارا بدلنے کی کوشش میں انہیں برصغیر کی زمینی حقیقتوں کا اژدھا چاٹ گیا۔ اب امریکا اسی طریقے کو دوبارہ اختیار کرنے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے۔ امریکا کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ خود کو بھارت کے ساتھ کھڑا کرکے جنوبی ایشیا کی سیاست میں جو خلا پیدا کر رہاہے چین اسے پُر کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور امریکا کی تازہ خواہش کے پیچھے یہی خدشہ جھلکتا ہے۔ تاہم یہ کشمیر کے حوالے سے خوش آئند بات ہے کہ دنیا کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھنے کے بجائے بدستور ایک متنازع علاقہ اور حل طلب مسئلہ سمجھ رہی ہے۔