شام‘ فضائی حملے میں 7بچوں سمیت 10شہید

141

دمشق/ واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) شام کے جنوب میں ایک تازہ فضائی حملے میں کم از کم 10 شہری شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ فضائی حملہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ میں مزاحمت کاروں کے زیر انتظام قصبے عربین میں پیر اور منگل کی درمیانی شب کیا گیا۔ شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ یہ حملہ بشارالاسد کی فوج یا اس کے حلیف روس کی فوج نے کیا۔ اس حملے میں 7 بچے، 2 خواتین اور ایک بزرگ شہری شہید ہوگیا، جب کہ 50 سے زائد زخمیوں میں بھی بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ واضح رہے کہ ہفتے کے روز روس نے شامی مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت مشرقی غوطہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، تاہم غوطہ کی مزاحمتی تنظیموں نے اس قسم کے کسی معاہدے کی نفی تھی۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں بشارالاسد کی فوج کے خلاف لڑنے والے مزاحمت کاروں کی امداد کا منصوبہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بہت خطرناک اور وسائل کا ضیاع تھا۔ صدر ٹرمپ کے اس اعلان سے چند روز قبل ہی امریکا کے خصوصی آپریشنز کے سربراہ جنرل ٹونی تھامس نے بھی 4 سال سے جاری امدادی منصوبے کے خاتمے کی تصدیق کی تھی، لیکن انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی تھی کہ اس فیصلے میں روس کی خواہش کارفرما ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ایمازون واشنگٹن پوسٹ نے بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں کے لیے خطرناک اور رقوم کے ضیاع کے پروگرام کو ختم کرنے سے متعلق حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ انہوں نے اخبار کے ایک مضمون کے ردعمل میں یہ ٹویٹ کی ہے۔ اخبار نے ’روس سے تعاون شام میں ٹرمپ کی حکمت عملی کی بنیاد بن گیا‘ کے عنوان سے مضمون شائع کیا ہے۔ اس نے بے نام سرکاری عہدے داروں کے حوالے سے کہا ہے کہ ’امریکا اور اس کے آلہ کار شام کے بیشتر وسطی اور جنوبی علاقوں میں بشارالاسد کو کنٹرول دے دیں گے۔ اس کے بدلے ماسکو اور اس کے اتحادی امریکی اتحادیوں کی داعش کے خلاف کارروائیوں کے لیے راہ ہموار کریں گے‘۔ امریکی اور روسی صدور نے اسی ماہ جرمن شہر ہیمبرگ میں جی 20 کے سربراہ اجلاس کے موقع پر شام کے جنوب میں محفوظ علاقوں کے قیام سے اتفاق کیا تھا۔ واضح رہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما نے 2013ء میں بشارالاسد کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کرنے والے کچھ مزاحمتی گروہوں کے لیے امدادی پروگرام کی منظوری دی تھی۔ اس کے تحت اسد حکومت کے مخالف کچھ شامی مزاحمت کاروں کو تربیت دی گئی تھی۔ تاہم بعض حلقوں نے شامی مزاحمت کاروں کی بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے صلاحیت کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا تھا، جب کہ اس دوران سخت گیر جنگجو گروپ داعش کا بھی ظہور ہو گیا تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران شامی مزاحمت کاروں کو روسی اور اسدی افواج کی مشترکہ کارروائیوں اور تباہ کن فضائی حملوں کے نتیجے میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور وہ شمالی شہر حلب میں اپنے زیر قبضہ علاقوں سے محروم ہوگئے ہیں۔