سعودی عرب میں حالات پھر خراب ہورہے ہیں، لوگ نکالے جارہے ہیں، نت نئے محاصل لگ گئے ہیں۔ یہ باتیں سن سن کر ہمیں اب سے 21 برس پرانا باب یاد آگیا جب ہم سعودی عرب پہنچے تو ہمیں لوگوں نے یہی بتایا کہ میاں کہاں جارہے ہو وہ زمانہ کب کا گزر گیا جب فراوانی تھی۔ لیکن اس گتھی کو محترم شعاع النبی ایڈووکیٹ نے سلجھایا۔ وہ ہمیں ملے تو ہم نے کہا کہ بھائی یہاں تو لوگ اس طرح باتیں بنارہے ہیں۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے اب سے 22 سال قبل جب ہم آئے تھے (یعنی 1974ء) تو اس وقت بھی لوگ یہی کہہ رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس کا رزق جتنا جہاں لکھا ہے وہ وہاں سے حاصل کرے گا اللہ نے مقرر کردیا ہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور جب اللہ روک دے تو کوئی دے نہیں سکتا۔ بات آئی گئی ہوگئی ہم نے پانچ سال کام کیا اور اللہ کے حکم سے 2001ء میں واپس آئے لیکن شعاع النبی نے ایک اور بات کہی تھی کہ یہاں سعودی عرب میں رہنے کے لیے ایک شرط ہے اپنے ذہن میں رکھنا کہ تمہیں واپس جانا ہے۔ یہاں بڑی مقدس زمین ہے بڑے اہم مقامات ہیں لیکن یہ سب ایک دن چھوڑنا پڑیںگے۔ لہٰذا تیاری واپسی کی رکھنا اور کم از کم ہم نے تو ایسا ہی کیا۔ اب پھر شور مچا ہوا ہے اس شور کے دوران عمرے کا قصد ہوا اور عین اس وقت ہوا جب مملکت میں یہ سب کچھ بھی ہورہا تھا ایک مرتبہ پھر ان کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کا ذکر 100ریال کی فیس کے ساتھ کریںگے۔
سفر کے بارے کہا جاتا ہے کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے اور اس سفر کے بارے میں کیا کہنے جو عمرے کے لیے کیا جائے۔ آدمی ہر طرح ظفریاب ہوتا ہے۔ عمرہ کرکے قبولیت کے نتیجے میں اچھے لوگوں کی صحبت کی وجہ سے مملکت اور خادم حرمین شریفین کی جانب سے معتمرین اور فیوض الرحمن کی پذیرائی اور خدمت کے سبب، غرض ہر طرح سے کامیابی۔
سفر کا احوال یہ ہے کہ اتوار18 جون کو پی آئی اے کے ذریعے روانگی تھی۔ جس کو بتائو پی آئی اے سے جارہے ہیں وہ کہتا کہ ارے کیا غضب کیا تم نے۔ اللہ رحم کرے۔ واقعی اللہ نے رحم کیا اور پی آئی اے کی پرواز نہایت پر سکون طریقے سے اپنے وقت پر روانہ ہوکر اپنے وقت پر جدہ پہنچ گئی۔ 18 جون کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ کا فائنل بھی تھا۔ اگر چہ ہم یہ بھول چکے تھے لیکن پائلیٹ نے بار بار اعلان کرکے یاد دلادیا۔ دلچسپ امر یہ ہوا کہ ہمارا روزہ سعودی عرب کی جانب سفر کی وجہ سے طویل ہوتا جارہا تھا یہاں تک کہ افطار کا وقت قریب ہوا تو فضائی میزبانوں نے مسافروں میں ڈبے تقسیم کئے لیکن ہر ایک کو ڈبہ پکڑاتے ہوئے ہدایت کی جارہی تھی کہ جب اعلان ہو تو کھانا۔ جیسے ہم روزانہ بغیر اعلان کے کھانے لگتے ہیں۔ اچانک پائلٹ نے لائوڈ اسپیکر آن کیا سب کے ہاتھ ڈبوں کی طرف بڑھے لیکن پائلٹ نے صائمین کے لیے ایک اور فرحت کا اعلان کیا وہ روزہ کھولنے کا نہیں تھا … بلکہ 180 رنز سے بھارت کو ہرانے کا اعلان تھا۔ لوگوں نے اس پر مبارکباد کا تبادلہ کیا اور پھر اگلے اعلان کا انتظار کرنے لگے یعنی افطاری اور بالآخر لینڈنگ سے 15 منٹ قبل اعلان ہوگیا۔ ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا کہ ہم پی آئی اے سے جدہ پہنچے ہیں یعنی اس کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی روشنی میں جو خدشات تھے ان میں سے کوئی بات درپیش نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ لینڈنگ بھی نہایت نرم انداز میں ہوئی۔ اب جدہ ائرپورٹ کا احوال یہ ہے کہ ہمیں لگ رہا تھا کہ تراویح یا قیام الیل میں حرم مکی میں ہوںگے لیکن ائرپورٹ کارگو ہینڈلنگ والوں کی مس ہینڈلنگ نے 8 بجے اترنے والی پرواز کے مسافروں کو رات 2 بجے سامان فراہم کیا۔ پھر جو ہوا وہ ہونا ہی تھا یعنی مکہ مکرمہ کی گاڑی تک تاخیر سے پہنچے۔ ڈرائیور نے بہر حال راستے میں سحری کروادی لیکن پہلی ہی فجر بس میں ادا کرنا پڑی کیونکہ اترنے، وضو کرنے یا بس رکوانے کا موقع نہیں تھا۔ یہاں اس ادارے کا ذکر کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے اس سفر کا پروگرام ترتیب دیاگیا یہ کراچی میں انور سروسز کے نام سے کام کررہا ہے اور میز اب گروپ کے شریک کار ہیں۔جدہ میں ہمارے پہلے حج کے منتظم مسعود جاوید مرحوم کے ساتھ شاہد محمود انور اس کے مالک و مختار ہیں۔ پرواز کی بکنگ سے واپسی تک نہایت پروفیشنل انداز میں رہنمائی کی گئی یہاں تک کہ واپسی سے ایک رات قبل فون کرکے یاد دلایا کہ کل آپ کی واپسی کی پرواز ہے۔ اتنا وزن لے جاسکتے ہیں زمزم ائرپورٹ پر ملے گا۔پانچ گھنٹے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔ ان کے انتظام کو مقامی ایجنٹوں نے خراب کرنے کی کوشش کی اور ہوٹلوں میں پاکستان سے تعلق کی وجہ سے یا شاید کسی کاروباری مفاد کی خاطر اس کے انتظامات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ بہر حال کراچی سے کراچی تک سفر پتا ہی نہیں چلا۔ مکہ مکرمہ پہنچنے کی بات ہورہی تھی وہاں فجر کے بعد پہنچے مقامی معلم کے ایجنٹ نے ایک ہوٹل کے سامنے بس سے اتر وا دیا لیکن ہمیں بتایا کہ سامنے کوبری مسفلہ کے دوسری طرف ہوٹل ہے۔ ہوٹل کے دروازے تک سامان سڑک پر گھسیٹتے ہوئے پہنچے وہ پرچے کی کاپی وہاں رکھ کر یہ جا … وہ جا… اور ہم سڑک اور ہوٹل کے کائونٹر کے چکر لگا رہے تھے پتا چلا کہ موصوف رات سے سوئے نہیں تھے اس لیے جلدی چلے گئے یہ بھی غنیمت ہے… ورنہ 11 بجے تک انتظار کرنا پڑتا۔ بہر حال وہاں سے بنگالی بھائی ایک وہیل چیئر پر ہوٹل پہنچانے پر راضی ہوئے۔ وہیل چیئر ہمارے لیے نہیں سامان کے لیے تھی۔
یہ تو کچھ کچھ حج کا سا معاملہ ہوگیا۔ سیدھے عمرہ کرنے جائیں یا آرام کریں۔ احرام باندھے ہوئے 15 گھنٹے ہورہے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ آرام کرکے عصر میں چلتے ہیں یوں 24 گھنٹے کے احرام کے بعد عمرے کے لیے حرم پہنچے۔ رش حسب توقع تھا اس لیے زیادہ نہیں لگا اور پرانا تجربہ بھی تھا خود کو ریلے کے حوالے کردیا۔ اندر جانے سے قبل یاد آیا کہ افطار کا سامان تو لیا نہیں۔ بے ساختہ منہ سے نکلا اب آگے بڑھو جس کے مہمان ہیں وہ دے گا اور پانچ منٹ بعد فون پر بات ہوئی کہ خواتین کے حصے میں جاتے ہوئے سعودی حکومت کی جانب سے روزہ داروں کے لیے افطار کے دو ڈبے مل گئے ہیں اور بیٹھنے کی جگہ بھی۔ ہم نے بتایا ہماری طرف بھی یہی کیفیت ہے۔ حرمین میں آنے والے اللہ کے مہمان ہیں ان کا انتظام ہو ہی جاتا ہے اور بہترین ہوتا ہے۔ جب عمرہ کرکے ہوٹل آئے تو لفٹ کے دروازے پر ایک اور نوٹس دیکھا کہ سحری کا انتظام ہوٹل انتظامیہ کی طرف سے ہے۔ لیجیے افطار و سحر دونوں کا انتظام ہوگیا۔
جاری ہے