زبان وبیان

966

zcl_muftiMuneebہم نے ’’اَخلاقی اَقدار کا فُقدان‘‘ کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں غالب کا شعر اس طرح لکھا تھا:
درد مَنّت کشِ دوا نہ ہوا
یہ بھی اچھا ہوا، بُرا نہ ہوا
اردو محفل فورم کی ویب سائٹ ’’Urduweb.org‘‘ پر اس شعر کے دوسرے مصرعے کی تصحیح کی گئی ہے، جو اس طرح ہے: ’’میں نہ اچھا ہو ا، برا نہ ہوا‘‘۔ اس شعر کے معنی ہیں: ’’دوا سے بیماری میں افاقہ نہ ہوا، میرے نزدیک یہ اچھا ہی ہوا، کیوںکہ میرا درد دوا کے زیرِ بار احسان نہیں ہوا‘‘۔ ہوسکتا ہے غالب کا درد ’’دردِ عشق‘‘ ہو، جو دوا سے تو ٹھیک ہونے سے رہا۔ ان صاحبِ علم نے میری تصحیح کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے: ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘‘، سو اس پر بھی بات کرلیتے ہیں۔
خطائے بزرگاں گرفتن خطا ست: ہمارے ہاں عام طور پر یہی لکھا اور بولا جاتا ہے اور معنوی طور پر یہ درست ہے، یعنی بزرگوں کی غلطی پر گرفت کرنا بجائے خود غلطی ہے اور خلافِ ادب ہے۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کی گلستان میں اصل شعر یوں ہے:
نـہ در ہـر ســخــن بــحــث کــردن رواســت
خــطــا بــر بــزرگـاں گـرفــتــن خــطــاســت
ترجمہ: ’’ہر بات میں بحث کرنا مناسب نہیں ہے اور بزرگوں کی غلطی پر گرفت کرنا درست نہیں ہے‘‘۔ الغرض دوسرا مِصرَع: ’’خطا بر بزرگان گرفتن خطا ست‘‘ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اردو میں عام طور پر ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے، اس لیے اُن کو ملامت کرنا مقصود نہیں ہے، صرف اُن کے توسُّط سے اپنے قارئین کو متوجہ کرنا مقصود ہے۔ ہمارے ایک بزرگ تفَنُّنِ طبع کے طور پر اس مصرعے کا ایک معنی یہ بیان کرتے تھے: ’’اگر کسی بزرگ سے بشری تقاضے کے تحت غلطی سرزد ہوجائے، تو بزرگ کا قول ہونے کی بنا پر اُسے حرفِ آخر نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اُس کے مقابل جو صحیح بات مستند ذرائع سے معلوم ہوجائے، اُسے شرحِ صدر کے ساتھ قبول کرلینا چاہیے‘‘۔
اہالیان اور اہلیان: یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں ’’اَہْل‘‘ کی جمع ’’اہلیان اور اہالیان‘‘ استعمال ہوتی ہے، جیسے ’’اہلیانِ کراچی یا اہالیانِ لاہور‘‘ وغیرہ۔ اہل عربی لفظ ہے اور اسمِ جنس ہے، اسمِ جنس کا اطلاق واحد اور جمع پر یکساں ہوتا ہے، جیسے ایک قطرہ بھی پانی ہے اور پورا سمندر بھی پانی ہے۔ اگرچہ عربی میں لفظی اعتبار سے اس کی جمع ’’اَھْلُوْن، اَھَال، آھَال، اَھْلَات‘‘ اور جمع الجمع ’’اَھَالِیْ‘‘ آتی ہے، مگر اسے کثیر پر استعمال کرنے کے لیے لفظاً جمع بنانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ جمع کے معنی کو بھی شامل ہے جیسے اہلُ المدینۃ، اھلُ الوطناور اَھلُ الکتاب وغیرہ۔ انہی کلمات کو جب ہم اردو میں فارسی ترکیب کے مطابق استعمال کرتے ہیں تو پہلے کلمے کے نیچے اضافت کا کسرہ (زیر) لکھ دیتے ہیں، جیسے اہلِ کتاب، اہلِ علم، اہلِ فن، اہلِ وطن وغیرہ۔ اَہل ازدواج کو بھی کہتے ہیں اور اِسی سے عربی میں شادی شدہ کو آہِل اور مُتَاَھِّل کہتے ہیں۔ پس ہم اہلِ پاکستان، اہلِ لاہور، اہلِ کراچی اور اہلِ محلہ استعمال کرسکتے ہیں۔
ہے خدا، فدائے لقائے رسول آج: سید صبیح الدین صبیح رحمانی صاحب کا معروف جریدہ ’’نعت رنگ‘‘ ہے، جو وقفے وقفے سے کتابی شکل میں آتا رہتا ہے، وہ نعت کے موضوع پر کافی وقیع کام کر رہے ہیں۔ نعت رنگ کے تازہ شمارے میں ڈاکٹر محمد افتخار شفیع صاحب نے ’’مجید امجد کی ایک نایاب نعت‘‘ دریافت کی ہے، اُس کا ایک شعر یہ ہے:
ہے شاہد مدینہ، فدائے خدائے پاک
اور ہے خدا، فدائے لقائے رسول آج
اس شعر کے دوسرے مصرعے: ’’اور ہے خدا، فدائے لقائے رسول آج‘‘ کے معنی ہیں: ’’اللہ تعالیٰ اپنے رسولِ کریم ؐ کی ملاقات پر فدا ہے‘‘، ہماری نظر میں یہ مصرع محل نظر ہے، کیونکہ فدا کے معنی ہیں: ’’قربان ہونا‘‘، یعنی اپنی ہستی کو کسی بالا تر ہستی پر قربان کردینا۔ کائنات کی ہر چھوٹی اور بڑی ہستی حتیٰ کہ پوری کائنات کا اللہ تعالیٰ پر فدا ہونا تو معنوی طور پر درست ہے، بلکہ یہ بندگی کی معراج ہے، لیکن کائنات کی سب سے بڑی ہستی حتیٰ کہ امام الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ پر بھی ذاتِ باری تعالیٰ کا فدا ہونا اُس کے شایانِ شان نہیں ہے، کیونکہ فدا ہونے والا اپنا وجود ’’مَفْدِیْ عَلَیْہ‘‘ (یعنی جس پر قربان ہوا جائے) پر قربان کرتا ہے یا اس کی خواہش رکھتا ہے اور اس ارادے کا اظہار کرتا ہے۔ ہماری نظر میں کسی بھی صورت میں یہ ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے، البتہ رسول اللہ ؐ کے لیے صحابۂ کرام اکثر فرمایا کرتے تھے: ’’فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّی یَارَسُوْلَ اللّٰہ‘‘ یعنی اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔
ایک حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ ؐ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص سے (غزوۂ اُحد کے موقع پر) فرمایا: ’’اِرْمِ فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّی‘‘ ترجمہ: تیر پھینکو، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں، (صحیح البخاری)‘‘۔ اس پر محدثین کرام نے بحث کی ہے اور جو بہترین توجیہ یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے لطف وکرم یا اظہارِ محبت یا جہاد کے موقع پر حوصلہ افزائی کے لیے یہ کلمات ارشاد فرمائے اور اس طرح کے کلمات رسول اللہ ؐ سے ایک سے زائد بار منقول ہیں، آپ ؐ کو اپنی ذات کے حوالے سے اختیار ہے کہ آپ جو چاہیں فرمائیں۔ اگرچہ کسی پر فدا ہونا بہر صورت حقیقی معنی میں نہیں ہوتا، البتہ فدا ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ؐ کی رضا کے لیے اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کی طرف فدا کی جب نسبت ہو تو اُسے بھی ہم اظہارِ محبت یا لطف وکرم کے معنی میں لے سکتے ہیں۔ گزارش ہے کہ نبی ؐ نے یہ کلمات خود فرمائے، ہماری کیا مجال کہ ہم اللہ تعالیٰ یا اُس کے رسولِ مکرّم ؐ کی شان میں ایسے کلمات کہیں۔ قرآنِ مجید میں تو رسول اللہ ؐ کی شان میں ذو معنی کلمات کہنے کی ممانعت ہے، چہ جائیکہ ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں یہ جسارت کی جائے۔
نور چشمی:ہمارے ہاں بعض اوقات شادی کارڈ پر دولہا کے لیے ’’نورِ چشم‘‘ اور دلہن کے لیے ’’نور ِ چشمی‘‘ لکھا جاتا ہے، شاید بعض لوگوں کے خیال میں ’’نور چشم‘‘ مذکر کے لیے اور ’’نورِ چشمی‘‘ مؤنث کے لیے ہے، یہ غلط ہے، کیونکہ نورِ چشم کا اطلاق لڑکے اور لڑکی پر یکساں ہوتا ہے، اس کو انگریزی میں ’’Common Gender‘‘ کہتے ہیں۔ نور چشم کے معنی ہیں: ’’آنکھ کا نور‘‘ اور نور کا اطلاق مذکر ومونث دونوں پر یکساں ہوتا ہے، کیونکہ نور لفظاً تذکیر وتانیث کے وصف سے پاک ہے۔ مزید یہ کہ اگر ’’چشمی‘‘ میں چشم کی نسبت یائے متکلم کی طرف کی جارہی ہو، تو بھی درست نہیں ہے، کیونکہ چشم فارسی لفظ ہے اور نسبتِ متکلم کے لیے ’’ی‘‘ کا استعمال عربی میں ہوتا ہے، فارسی اور اردو میں نہیں۔ البتہ عربی لفظ ’’عین‘‘ کے معنی ہیں: ’’آنکھ‘‘ اور اس کی نسبت یائے متکلم کی طرف کر کے عینی (میری آنکھ) لکھ اور بول سکتے ہیں۔
ثوابدیدی اختیارات: جنابِ عبداللہ طارق سہیل نے اس طرف متوجہ کیا کہ ٹیلی ویژن کے نیچے جو ٹکرز چل رہے ہوتے ہیں، انہیں لکھنے والے کتنے باکمال ہوتے ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے: شاید انگریزی میں کوئی نوٹیفکیشن یا حکمنامہ یا خبر آئی ہوگی، جس میں انگریزی زبان میں ’’Discretionary Powers‘‘ لکھا ہوگا، جس کے معنی ہیں: ’’صوابدیدی اختیارات‘‘ یعنی صاحبِ منصب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی سوچ اور دیانت کے مطابق اس کا فیصلہ کرے۔ چینل کے فاضل کارکن نے اس کا ترجمہ ’’ثوابدیدی اختیارات‘‘ لکھا، پس اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں صحافت کے میدان میں علمی معیار کیا رہ گیا ہے۔
الاحلی بینک:ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک ٹکر دیکھا: ’’الاحلی بینک‘‘، یہ کسی عرب ملک سے متعلق ہوگا۔ انگریزی زبان میں قومی بینک کو ’’National Bank‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا عربی ترجمہ: ’’اَلْبَنْک اَلْاَھْلی‘‘ ہے، اَلْاَھْلِی کے معنی نیشنل کے ہیں، مگر فاضل مترجم نے اس کو ’’البنک الاحلی‘‘ لکھا، کیونکہ عربی میں ’’ح ‘‘ اور ’’ھ‘‘ دونوں کے لیے H آتا ہے۔
ٹِرسامے: ہمارے اردو اخبارات اور ٹیلی ویژن ٹکرز میں برطانوی وزیرِ اعظم کا نام ’’تھریسا مے‘‘ لکھا جاتا ہے، محترمہ کو وزیرِ اعظم بنے کافی عرصہ ہوگیا ہے، لیکن ہمارے اہلِ صحافت چیزوں کو سمجھنے کے لیے زیادہ زحمت نہیں اٹھاتے، انگریزی میں یہ نام: ’’Thresa May‘‘ ہے، اس میں H ساکت (Silent) ہے، یہ نام دو لفظوں کا مرکب ہے اور اس کا صحیح تلفظ ’’ٹِرسا، مَے‘‘ ہے۔
John McCain: ٹیلی ویژن اسکرین پرایک ٹِکر چلتا ہوا دیکھا، امریکا کے با اثر سینیٹر ’’جَان مک کین‘‘ کو برین کینسر ہوگیا۔ اس کا صحیح تلفظ ’’جان مَکین‘‘ ہے۔ Johnکا انگریزی تلفظ ’’جان‘‘ اور ’’جون‘‘ کے درمیان ہے، زیادہ ’’جان‘‘ کی طرف مائل ہے۔
McDonalds: یہ امریکا کے ’’ہمبرگراور فاسٹ فوڈ‘‘ کی ایک چین یعنی نیٹ ورک ہے۔ اس کو ہمارے ہاں عام طور پر ’’میکڈونلڈ‘‘ بولا جاتا ہے، حالانکہ یہ ’’مَکڈونلڈز‘‘ ہے۔اسی طرح Macleod Roadکوہمارے ہاں’’ میکلوڈ روڈ ‘‘ بولا جاتا ہے، حالانکہ اس کا صحیح تلفظ ’’مَکلوڈروڈ‘‘ ہے، اگرچہ کراچی میں اس کا نام بدل کر ’’ابراہیم اسماعیل چندریگر روڈ ‘‘رکھ دیا گیا ہے،جسے تخفیف کے ساتھ ’’آئی آئی چندریگر‘‘کہتے ہیں، ’’چندریگر ‘‘کو ’’چندریگڑ‘‘بھی بولا جاتا ہے۔
امیرِ قطر:ٹیلی ویژن پر ٹِکر چل رہا تھا:’’امیرِ قطرشیخ تمیم بن حماد التھانی‘‘ نے پہلی بار ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کیا‘‘۔ اصل میں یہ لفظ ’’الثانی‘‘ ہے، آج کل عرب ’’ث‘‘کا تلفظ ’’ت‘‘سے کرتے ہیں، چنانچہ لکھا ہوا ’’الثانی‘‘ہوتا ہے، مگر ’’التانی‘‘بولا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ’’ث‘‘ کو رومن میں ’’Th‘‘سے لکھتے ہیں، مثلاً حدیث کو ’’Hadith‘‘لکھا جاتا ہے۔پس انگریزی میں ’’الثانی‘‘کو ’’Althani‘‘ لکھا گیا اور ہمارے ٹکر لکھنے والے فاضل نے اُسے ’’’الثانی‘‘ کی بجائے ’’التھانی‘‘لکھ دیا۔