کراچی ( اسٹاف رپورٹر )کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ(کے ڈبلیو ایس بی)کے منیجنگ ڈائریکٹر ہاشم رضا زیدی نے کہا ہے کہ ورلڈ بینک کراچی واٹر بورڈ کو ری سبجیکٹ کررہا ہے، مارکیٹ بیس ایم ڈی اور منیجرز لیے جائیں گے ،گھریلوکنزیومرز اور بلک صارفین کو کے ڈبلیو ایس بی کے بورڈ میں شامل کیا جارہا ہے جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پرواٹر بورڈ کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے گی۔سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کی تجویز پر سائٹ صنعتی علاقے کے لیے علیحدہ پانی کی لائن بچھانے کی حامی بھرتے ہوئے ہاشم رضا زیدی نے کہا ہے کہ سائٹ کے صنعتکار چوری کا پانی خرید رہے ہیں جبکہ اس پانی کا پیسہ واٹر بورڈ کو بھی نہیں مل رہا،پانی کی چوری میں واٹر بورڈ کا عملہ بھی ملوث ہے اور ادارے کے افسران اور ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری میں صنعتکاروں سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا۔ اس موقع پر بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی، وزیراعلیٰ سندھ کے سابق مشیر زبیرموتی والا،ایسوسی ایشن کے قائم مقام صدر سلیمان چاؤلہ،سابق صدرجاوید بلوانی نے بھی خطاب کیا جبکہ سائٹ لمیٹڈ کے ایم ڈی غلام مصطفیٰ جویو،واٹر بورڈ کے اعلیٰ افسران،عارف لاکھانی،طارق یوسف،اقبال لاکھانی،سلیم پاریکھ،اقبال عربی،انیس مانڈویا اور دیگر بھی موجود تھے۔ ہاشم رضازیدی نے کہا کہ کینچھر جھیل سے ہمیں550ملین گیلن پانی روزانہ مل رہا ہے جبکہ دھابیجی پر بھی ہم نے میٹر لگا دیا ہے تاکہ علم رہے کہ کتنا پانی ہمیں وہاں سے مل رہا ہے،کراچی میں روزانہ150ملین گیلن پانی یا تو چوری ہورہا ہے یاپھر بہہ رہا ہے اور ان پر قابو پانے کے لیے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے،ہماری پہلی ترجیح لوگوں کو صاف پینے کا پانی مہیا کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ سائٹ صنعتی علاقے میں پانی کی لیکیج فیکٹریوں کی جانب سے بچھائی گئی لائنوں میں ہے اور واٹر بورڈ کی لائنوں میں پانی کا کہیں بھی رساؤ نہیں ہے،سائٹ صنعتی علاقے میں دو یا تین پانی کے متبادل سسٹم بچھے ہوئے ہیں، مافیاکے سواکراچی میں چوری کا پانی کوئی فروخت نہیں کرسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ صنعتکار پانی چوری کرتے ہیں اس لیے ہم نے فیکٹریوں میں پانی کے کنکشنز کو چیک کرنے کے لیے آپریشن نہیں کیا۔میری تمام صنعتی ایسوسی ایشن کو تجویز ہے کہ ہم پانی کی لیکیج کو آؤٹ سورس کردیتے ہیں،صنعتکار اسے کسی سے بھی درست کرائیں اس کی درستگی کے اخراجات ہم خود اٹھائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ 110ملین گیلن پانی کا منصوبہ آئندہ سال جون میں اوپن ہوجائے گا جس کے لیے پمپس بھی آچکے ہیں اس کے علاوہ K4منصوبہ بھی آئندہ سال مکمل ہوجائے گا جس سے260ملین گیلن پانی سسٹم میں آجائے گا اس کے علاوہ 65ملین گیلن پانی مزید سسٹم میں آئے گا اس طرح پانی کی بحرانی کیفیت دور ہوجائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ پانی کے چار سورسز ہیں جن میں سے ایک واٹر بورڈ ہے،واٹر بورڈ کے جتنے بھی ریزرووائرہیں وہ سب انسانی صحت کے لیے بہترین ہیں لیکن اگر کہیں لائنوں میں کوئی سوراخ ہوجائے تو اس میں فضلہ شامل ہوجا تا ہے۔ہاشم رضا زیدی نے کہا کہ پانی کی چوری روکنے کے لیے واٹر بورڈمیں دو انسپیکشن ٹیمیں بنادی گئی ہیں اور جس افسر یا عملے کے خلاف کوئی ثبوت ملا ہم اسے نہیں چھوڑیں گے اور انہیں سزاا ملے گی،واٹر بورڈ اپنے صارفین کی شکایات دورکرنے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے اور جتنا بھی پانی ہمارے پاس ہے اسے ہم بلاامتیاز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور موثر مینجمنٹ سسٹم بنا رہے ہیں۔ایم ڈی واٹر بورڈ نے سائٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدرجاوید بلوانی کی جانب سے فراہم کردہ پانی کی لائن کے پی سی ون کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اسے فوری طور پر پلاننگ ڈویڑن کو بھیج کر منظوری حاصل کی جائے۔انہوں نے کہا کہ سائٹ،کورنگی،لانڈھی،سپرہائی وے سمیت شہر کے5 صنعتی علاقوں کے لیے کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ منظور ہوچکے ہیں،ایک کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لیے11سے12ایکٹر زمین درکار ہوتی ہے اورواٹر بورڈ کے پاس زمین موجود ہے،2002ء میں سائٹ صنعتی علاقے کے لیے کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے قیام کے لیے 9کروڑ روپے منظور کرائے تھے جوسائٹ لمٹیڈ کے پاس موجود ہوں گے۔قبل ازیں بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے کہا کہ بغیر ثبوت صنعتکاروں پر پانی کی چور کے الزامات برداشت نہیں کیے جائیں گے،اگر پانی کی چوری کے کوئی ثبوت موجود ہیں تو فیکٹری مالکان کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے جبکہ 7ملین گیلن پانی جہاں چوری ہورہا ہے اسے پکڑا جائے اور جس مقام پر پانی چوری ہورہا ہے وہاں ایک ہفتہ پانی کی فراہمی بند کردی جائے تمام تر صورتحال سامنے آجائے گی۔زبیرموتی والا نے کہا کہ سائٹ کو واٹر بورڈ کے دعوے کے مطابق ملنے والے550ملین گیلن روزانہ پانی میں سے سائٹ کواعشاریہ 3فیصد پانی مل رہا ہے جولاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے والے اس صنعتی علاقے کے لیے ناکافی ہے،شہر کراچی میں40فیصد پانی فروخت ہورہا ہے جبکہ60فیصد پانی کے پیسے واٹر بورڈ کو نہیں مل رہے،100فیصد واجبات کی ادائیگی کرنے والے سائٹ کے صنعتکارواٹر بورڈ سے صرف 2فیصد پانی مانگتے ہیں ،پانی کے ٹیرف میں کمی کی جائے اور ہائی بریڈ پمپس لگائے جائیں۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ کراچی کے ساتھ پانی کی فراہمی میں ناانصافی کا خاتمہ کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے قیام سے ہی دور ہوسکے گا۔