فلک سے دیکھ طلوعِ زمیں کا نظّارہ!

319

zc_ZairOZabarپی آئی اے کی ۳۸سالہ ملازمت کے دوران میں جب جنابِ انور شعورؔ کا یہ شعر حسبِ حال پایا:
کیا بادلوں میں سفر زندگی بھر
بنایا زمیں پر نہ گھر زندگی بھر
تو خیال آیا کہ کیوں نہ خیال کی وادیوں کے اوپرتیرتے ہوئے بادلوں کی سیر آج آپ کو بھی کرائی جائے۔ آج سیچونتیس برس پہلے کی ایک یاد آگئی۔ یورپ کا پہلا سفر درپیش تھا۔ تین ممالک ہدف تھے۔ ہالینڈ، برطانیہ اور (اُس وقت کا) مغربی جرمنی۔
یہ قصہ ہے کراچی کا۔ وطنِ عزیز کے ہلالی پرچم کے رنگوں سے مزیّن، سبزوسفید طیارہ، جب آندھیوں سے تیز صداؤں سے تیز گام، گرجتا، چنگھاڑتا، دوڑتا ہوا فضا میں بلند ہوا تو اُس نے زمین چھوڑکرآسمان کی طرف اُٹھتے ہوئے، سب سے پہلے شارع فیصل کے رُخ اپنے دائیں پر کو تِرچھا کیا پھر بائیں پر کو۔ شہر کا ایک الوداعی طائرانہ منظر سامنے تھا۔ کھوکھراپار، سعودآباد اور ماڈل کالونی کی گلیاں۔ ملٹری ڈیری فارم کے سرسبز باغات، لہلہاتے کھیت، ملیر کینٹ کی بیرکیں۔ جامعہ کراچی کا مرکزی کتب خانہ اور دور تک پھیلے ہوئے شعبہ جات۔ گُلشنِ اقبال کے مکمل اور نامکمل بنگلے۔ لیاقت آباد کے گنجلک مکانات۔ قدیم شہر اور کلفٹن کی جدید تعمیرات۔ سمندر اور سمندری جہاز۔ مناظر اتنی تیزی سے گزر رہے تھے کہ کھڑکی سے لگی ہوئی آنکھوں کو پلک جھپکنے کی فرصت نہ تھی۔ اُڑان اونچی ہوگئی تو زمین پیروں تلے سے کھسک لی۔ آسمان سر پر آنے لگا۔ اب ہم اپنے شہر کی تو کیا مُلک کی حدود بھی پارکرگئے تھے۔ اعلانات بتانے لگے کہ کون کون سے ممالک زیرِنگیں آچکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، شام، ترکی، یونان وغیرہ وغیرہ۔ صحرا، دریا، پہاڑ سمندر سب ہمارے بال وپر کے نیچے تھے۔ کہیں کہیں بادل ہم سفر تھے۔ ہمارا جہاز دمشق کے ائرپورٹ پر تھوڑی دیر سُستانے اور ایندھن بھروانے کے بعد اُڑا اور اب ایمسٹرڈم کے بین الاقوامی ہوائی مستقر پر اُترنے والا تھا۔ مُرغِ تخیل کی پرواز ہمارے جہاز سے بھی تیز رفتار تھی۔ جب تک شہرکی گلیوں میں بچپن کھیلتا رہا، لڑکپن لڑتا جھگڑتا، دوڑتا بھاگتا رہا، نوجوانی دیوانی ہوہو کر مہمات، مباحث اور مشکلات میں مبتلا رہی تب تک کبھی خیال ہی نہ آیا کہ:
فلک سے دیکھ طلوعِ زمیں کا نظّارہ
نگاہ پر تو بہت قرض آسماں کے ہیں
لیکن آج جب گزری زندگی کی تمام منظر گاہوں کو مجموعی طور پر بلندی سے یکجا اور بہ یک نگاہ گزرتے دیکھا تو زاویۂ فکر و نظر ہی بدل گیا، اور:
جس قدر زاویۂ فکر نے پہلو بدلے
اپنا مفہوم بدلتی گئی رعنائی بھی
مغرب کی دنیا بلندی سے دیکھنی ہو تو اقبالؔ کے مشورے کے مطابق … ’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں‘ … قرآن اپنے قاری کو فکر ونظر کے ایک ایسے بلند مقام پر لے جاتا ہے جہاں سے تمام مناظرصاف اور یکجا نظر آتے ہیں۔ اگر کم نگاہی کا مرض نہ ہو تو نگاہ بہت دُور دُور تک چلی جاتی ہے۔ کچھ مناظر قرآن میں نظر آجاتے ہیں اور کچھ قرآن کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ دیکھیے! سیدنا نوح علیہ السّلام کے دور میں سب سے بڑے ’سونامی‘ سے گزارے جانے کے بعد یہ دنیا پھر سے بسائی جارہی ہے۔ اِس ’سونامی‘ کے بعد بھی یہ دُنیا کئی بار اُجڑاُجڑ کر بسی ہے۔ زندگی سو سو کر جاگی ہے۔ اور انسانیت مرمر کر جی اُٹھی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کو (دہشت گرد قرار دے کر) آگ میں جھونکا جارہا ہے۔ آگ اللہ کے حکم سے گل گلزار بن گئی ہے۔ اللہ کے خلیل ؑ کو ہجرت کا حکم مل گیا ہے۔ اب وہ عراق سے فلسطین جا رہے ہیں۔ اُن کے ایک فرزند سیدنا اسحٰق علیہ السّلام
یہاں آباد رہیں گے اور دوسرے فرزند سیدنا اسمٰعیل علیہ السّلام وادی ٔ غیر ذی زرع بکۃ المبارکہ میں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کے پوتے سیدنا یعقوب علیہ السّلام ہیں۔ ان کا لقب اسرائیل ہے۔ اللہ کا بندہ۔ سیدنا یعقوبؑ کے بیٹے سیدنا یوسف علیہ السّلام کے دورمیں بنی اسرائیل مصر چلے جائیں گے اور وہاں چار پانچ سو سال تک رہیں گے۔ فلسطین کو بس یاد ہی کرتے رہیں گے کہ … ’گدابودنِ کنعاں خوش تر!‘ … ہوتے ہوتے بنی اسرائیل فراعنۂ مصر کے غلام ہوجائیں گے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اُن کو غلامی سے نجات دِلائیں گے۔ نجات دہندہ اُنہیں لے کر فلسطین لے کر پہنچے گا۔ مگر جب اُن سے کہا جائے گا کہ اب جان پر کھیل جاؤ۔ فلسطین کو آزاد کرالو۔ تو وہ سیدنا موسیٰ علیہ السّلام سے کہیں گے کہ: ’’جاؤ تُم اور تُمہارا ربّ جاکر لڑو۔ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں‘‘۔ یوں ارضِ مقدس فلسطین اُن پر چالیس برس تک حرام کردی جائے گی۔ وہ رات بھر صحراؤں میں بھٹکتے ہوئے چلتے رہیں گے اور جب صبح ہوگی تو وہ حیران رہ جایا کریں گے کہ … ’پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم‘ … اُن پر ذلّت اور مسکینی مسلّط کردی جائے گی ۔ اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائیں گے۔ بالآخرسیدنا یوشع بن نون علیہ السّلام کے دور میں یہ عذاب ٹلے گا اور نئی نسل فلسطین فتح کرلے گی۔ اب سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان علیہم السّلام کا زرّیں دور آئے گا۔ ہیکلِ سلیمانی تعمیر ہوگی۔ زوال شروع ہوگا تو ہوتا ہی چلا جائے گا۔ عراق کا نمرودِ وقت بخت نصر آکر ہیکل ِ سلیمانی کو مکمل طور پر مسمار کردے گا۔ لاکھوں افراد یروشلم میں قتل ہوجائیں گے۔ چھ لاکھ سے زائد یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قیدی بناکر بابل لے جایا جائے گا۔ ڈیڑھ سو برس تک فلسطین یہودیوں سے خالی رہے گا۔ اب سیدنا عُزیر علیہ السّلام سوسال کی نیند سے بیدار ہوکر آئیں گے۔ اُنہیں پھر سے آباد کریں گے۔ ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔ مگر پھر رُومی قابض ہوجائیں گے۔ اسی دور میں سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السّلام کا ظہور ہوگا۔ یہودی اللہ کے نبی ؑ کا انکار کریں گے اور بزعمِ خود سن تینتیس یا ۳۴ء میں آپؑ کو سُولی پر چڑھادیں گے۔ ۷۰ء میں ایک رومی جنرل یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا اور ہیکل ِ سلیمانی کو ایسا تباہ کرے گا کہ (آج ۲۰۱۷ء تک) دوبارہ اُس کی تعمیر نہ ہو سکے گی۔ رومی جنرل ٹائی ٹس صرف ایک دن میں ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی قتل کردے گا اور چھیا سٹھ ہزار کو پکڑ کر یورپ لے جائے گا۔ کالم کی جگہ بہت محدود ہے۔ تاریخ کا سفر بہت طویل ہے۔ بیچ کے کئی مناظر سے آگے گزر نا پڑے گا۔ یورپ میں یہود نے مسیحیوں کو دو فرقوں میں تقسیم کروانے میں کامیاب کردار ادا کیا۔ پوپ کے خلاف پہلی بغاوت انگلستان میں ہوئی۔ سب سے پہلے چرچ آف انگلینڈ الگ ہوا۔ اس سے قبل تمام مسیحی ایک پوپ کے ماننے والے تھے۔ یہودیوں نے سب سے پہلا بینک بھی انگلستان میں قائم کیا۔ ’بینک آ ف انگلینڈ‘۔ اِس سے قبل دُنیا میںکوئی بینک تھا نہ کوئی باقاعدہ سُودی کاروباری ادارہ۔ آج’ فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘ کالم کی جگہ بہت محدود ہے، اور تاریخ کا سفر بہت طویل۔ ۱۹۹۱ء میں جنگِ خلیج کے کمانڈر نے ایک دن یہ راز فاش کر ہی دیا کہ: ’’ہم نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے یہ جنگ کی‘‘۔ نائن الیون کے واقعات میں اسرائیلیوں کا ملوث ہونا سامنے آیا تو تحقیقات روک دی گئیں۔ مگر راز تو پھر بھی فاش ہوگیا۔ ابھی اور بھی ہوگا۔ ایک دن یورپی یونین کے فورم پر کہا گیا کہ ’عراق پر قبضہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی حفاظت اور اُس کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا ہے‘۔ آج مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں پر بند کر دی گئی ہے۔ ’ عظیم تر اِسرائیل‘ کے خواب ایک بار پھر دیکھے جانے لگے ہیں۔ طیب اردوان نے تمام مسلمانوں سے فلسطین پہنچنے کی استدعا کی ہے۔ ہمیں بھی اپنے ماضی سے محبت ہے۔ ماضی کے خواب ہم بھی دیکھ رہے ہیں۔ مگر تعبیر کے لیے کوئی اجتماعی کوشش کیے بغیر، کیا کریں؟
سبھی زندگی کے مزے لوٹتے ہیں
نہ آیا ہمیں یہ ہُنر زندگی بھر