روس‘ ایران اور شمالی کوریا پر نئی امریکی پابندیاں

127

واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی ایوانِ نمایندگان نے روس، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف نئی اور مزید سخت پابندیوں کے قانونی مسودے کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق منگل کے روز منظور ہونے والا یہ قانونی بل حتمی منظوری کے لیے سینیٹ بھیج دیا گیا ہے۔ امریکی سینیٹ میں بھی قانون ساز پابندیوں کے تو حامی ہیں، تاہم اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا شمالی کوریا کے حوالے سے جرمانے عائد کیے جانا چاہییں یا نہیں۔ امریکی ایوان نمایندگان کی جانب سے منظور کردہ قرار داد کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب روس پر عائد پابندیوں کو نرم نہیں کر سکیں گے۔اس طرح اب روس کے ساتھ روابط کو استوار کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے ہاتھ ایک طرح سے بندھ گئے ہیں۔ امریکی ایوان نمایندگان نے متفقہ طور پر جو قرارداد منظور کی ہے، اس میں روس، ایران اور شمالی کوریا پر نئی پابندیوں کا ذکر ہے۔ اس بل کی منظوری ایک ایسا انوکھا واقعہ ہے، جس میں ریپبلکن ارکان نے اپنی ہی جماعت کے صدر کے خلاف ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ اس بل کی ایک اہم شق کے مطابق روس پر عائد امریکی پابندیوں میں نرمی کے لیے صدر ٹرمپ کو اب پہلے کانگریس سے اجازت لینا ہو گی۔ اس طرح اب ڈونلڈ ٹرمپ روس پر پابندیاں ختم یا نرم کرنے کے حوالے سے یکطرفہ طور پر فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔ منگل کے روز پیش کی گئی اس قرارداد کے حق میں 419 ارکان نے ووٹ دیا، جب کہ صرف 3 نے مخالفت کی۔ دوسری جانب روس نے اپنے خلاف نئی امریکی پابندیوں کو انتہائی غیر دوستانہ اقدام قرار دیتے ہوئے انہیں روس امریکا تعلقات کے لیے ایک بری خبر قرار دیا ہے۔ روس نے نئی پابندیوں کا جلد جواب دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جب کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ان کے ملک کے خلاف مزید امریکی پابندیوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ صدر روحانی نے کہا کہ ان پابندیوں کے جواب میں ایرانی مفادات کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ صدر روحانی نے کہا کہ جس طرح ماضی میں ایران نے سخت ترین پابندیاں برداشت کیں، اب بھی ان کا ملک ان پابندیوں کا مقابلہ کرے گا۔ ادھر جرمن حکومت نے بھی روس کے خلاف نئی پابندیوں کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ فرانس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ روس، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف نئی امریکی پابندیاں بین الاقوامی قوانین کے خلاف دکھائی دیتی ہیں۔