قطر مخالف اتحاد: مزید دانش مندانہ فیصلوں کا انتظار

250

ملک الطاف حسین
5 جون کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے برادر اسلامی ملک قطر کے بائیکاٹ یا گھیرائو کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے دوحہ حکومت کے سامنے 13 مطالبات رکھے۔ اِن مطالبات کے 10 روز میں پورا نہ ہونے کی صورت میں مزید سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان 13 مطالبات میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرنے اور ترکی کے ساتھ فوجی تعاون معطل کرنے سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کی بات بھی کی گئی تھی کہ جن میں عالم عرب کی سب سے زیادہ مقبول عوامی جماعت ’’اخوان المسلمون‘‘ کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔ چار عرب ممالک کے 13 مطالبات کی یہ فہرست جب ’’دوحہ حکومت‘‘ تک پہنچی تو اس فہرست پر فوری ردعمل دیتے ہوئے قطر حکومت نے کہا کہ مذکورہ مطالبات کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ مطالبات قطر کی آزاد خارجہ پالیسی اور داخلی خود مختاری میں مداخلت ہے۔ دوسری جانب امریکا نے اس تنازعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قطر کے ساتھ ایک فوجی سودا کیا کہ جس کی رو سے 12 ارب ڈالر مالیت کے 36 ایف 15 جنگی طیارے قطر کو فروخت کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ قطر میں 10 ہزار امریکی فوجی پہلے سے تعینات ہیں اور اس خطے کا ایک اہم فوجی ائربیس بھی امریکا کے زیر استعمال ہے۔
سعودی عرب اسلامی دُنیا کا انتہائی محترم ملک ہے۔ تاہم موجودہ سعودی قیادت کے بعض اقدامات ناقابل فہم ہیں۔ مثلاً سعودی یمن تنازع، سعودی ایران تنازع اور اب سعودی قطر تنازعے کے بعد سعودی قیادت کی سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی اور مدبرانہ سوچ پر کئی طرح کے سوال اُٹھنے لگے ہیں جن میں دو سوال بہت اہم ہیں۔ اوّل یہ کہ جن تین مسلم ممالک کے ساتھ سعودی تنازع ہو چکا ہے کیا اِن کا کوئی متبادل پُرامن حل نہیں تھا اور دوم یہ کہ قطر کے سامنے جن 13 مطالبات کو رکھا گیا اِن مطالبات میں لگائے گئے الزامات کو محض چار عرب ممالک کی تصدیق تک محدود کیوں رکھا گیا۔ 56 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ’’او آئی سی‘‘ میں مذکورہ مطالبات اور الزامات کو زیر بحث کیوں نہیں لایا گیا؟
بہرحال 21 جولائی کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ قطر مخالف اتحاد 7 مطالبات سے دستبردار ہوگیا ہے، اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر عبداللہ معلّی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’دوحہ حکومت اب صرف وہ 6 نکات پورے کرے جو عرب ممالک نے قاہرہ اجلاس میں پیش کیے تھے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بائیکاٹ کرنے والے ممالک کا قطر کے خلاف 13 مطالبات منوانے کی شرط کو کم کرکے 6 مطالبات تک لے آنا اور اُن 6 میں بھی ایران، ترکی اور اخوان المسلمون کا ذِکر نہ کرنا خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم ترکی کے اِس موقف پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’تنازعات سے تنازعات جنم لیتے ہیں، پُرامن حل کے لیے مشترکہ مفادات پر مبنی موقف اختیار کیا جائے جب کہ بہتر ہوگا کہ سعودی حکومت قطر سے تمام مطالبات واپس لے، بصورت دیگر غیر متوقع نتیجہ نکل سکتا ہے‘‘۔ مزید برآں ہم سمجھتے ہیں کہ بعض برادر اسلامی ممالک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کسی بھی طور پر کسی کے بھی مفاد میں نہیں، عالمی سامراج مشرقی وسطیٰ میں گھوڑوں سے اُتر کر ٹینکوں پر سوار ہوچکا ہے جب کہ ہمیں بھی باہمی اِتفاق اور اتحاد کے ذریعے نئی صف بندی کرتے ہوئے اسلام مخالف اور مسلم دشمن قوتوں کی پیشانی پر وار کرنا ہوگا، اپنے دربار اور ایوانوں میں کسی دوسرے لارنس آف عربیہ کو داخل ہونے سے روکنا ہوگا، آپس کے اختلافات مشترکہ مفادات اور برادرانہ ماحول میں حل کرنا ہوں گے، ضد، ہٹ دھرمی ہمیں کمزور اور دشمن کا محتاج کردے گی۔ ماسکو، واشنگٹن، تل ابیب اور نیودہلی کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا لہٰذا ہم اُمید رکھتے ہیں کہ قطر مخالف اتحاد اپنے رویے اور فہرست پر نظرثانی کرتے ہوئے تمام 13 مطالبات کو واپس لیتے ہوئے سب سے پہلے قطر کے ساتھ بغل گیر ہوگا اور اُس کے بعد ’’مشترکہ مفادات کا ایجنڈا‘‘ طے کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی جائے گی۔
اللہ ربّ العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔