چودھری نثار بول پڑے

194

Edarti LOHبہت انتظار کرانے کے بعد آخر کار چودھری نثار بول ہی پڑے۔ ان کی پریس کانفرنس دو بار ملتوی ہوئی تاہم جمعرات کو یہ پریس کانفرنس ہو ہی گئی۔ اس میں انہوں نے کچھ گلے شکوے بھی کیے۔ بیشتر باتیں وہی ہیں جو ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں تاہم انہوں نے اہم بات یہ کہی ہے کہ وہ پاناما مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد اپنی وزارت اور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ پاناما کا فیصلہ آج جمعہ کو متوقع ہے جس کا مطلب ہے چودھری نثار آج ہی اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے استعفا دیتا تو یہ سمجھا جاتا کہ مشکل وقت میں نواز شریف کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اگر پاناما فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا تو بھی میں پارٹی نہیں چھوڑوں گا اور چٹان بن کر نواز شریف کے پیچھے کھڑا رہوں گا۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں میاں نواز شریف کو جی بھر کر خراج تحسین پیش کیا اور ان کی شرافت، کارکردگی اور تحمل کی بھرپور تعریف کی لیکن یہ بھی کہہ گئے کہ وہ ایسے لوگوں میںگھرے ہوئے ہیں جو خوشامدی ہیں ۔ اس طرح بین السطور کہہ دیا کہ میاں نواز شریف خوشامد پسند ہیں اور تنقید گوارہ نہیں کرتے۔ جب کہ چودھری صاحب کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ کھری بات منہ پر کرتے ہیں ۔ شاید اسی لیے انہیں دو ماہ سے کسی بھی قسم کی مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا۔ جب سے انہوں نے میاں نواز شریف کو کھری کھری سنائی تھیں تب سے ان کو عملاً تنہا کردیا گیا تھا۔ چودھری نثار کا کہنا ہے کہ وہ 33سال سے پارٹی اور میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں ۔ اس دور کا کوئی بھی شخص اس وقت پارٹی میں نہیں ہے۔ یا پارٹی چھوڑ گیا یا دنیا چھوڑ گیا۔ وہ اس وقت پارٹی میں سینئر ترین ہیں باقی لوگ بعد میں آئے۔ چنانچہ نہ تو وہ پارٹی سے ناراض ہیں نہ پارٹی چھوڑیں گے۔ 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کا ارتکاب کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا تو چودھری نثار کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا تھا جہاں سے وہ 22ماہ بعد رہا ہوئے۔ اس وقت انہوں نے اپنی پارٹی پر ناراضی کا اظہار کیا تھا کہ قید میں کسی نے ان کو نہیں پوچھا جب کہ دیگر سیاست دان ان کی خیر، خبر لیتے رہے۔ میاں نواز شریف اپنی جان بچا کر سعودی عرب نکل لیے تھے اور جاتے جاتے پارٹی کے تمام مخلص اور سینئر ارکان کو نظر انداز کر کے پارٹی اپنی اہلیہ کے حوالے کرگئے تھے۔ نہ پوچھنے کا شکوہ شیخ رشید نے بھی کیا تھا جن کو بے نظیر حکومت نے پلنگ کے نیچے سے کلاشنکوف برآمد ہونے کا الزام لگا کر جیل بھیج دیا تھا۔ مسلم لیگ ن نے ان کی بھی خبر گیری نہیں کی۔ یہ شاید ن لیگ کا کلچر یا مزاج ہے کہ اپنوں میں سے کسی پر وقت پڑ جائے تو اس کو اس کی تقدیر کے حوالے کر کے کنارہ کرلیا جائے۔ چودھری نثار کو بھی نظر انداز کیے جانے کا شکوہ ہے لیکن کیا 33سال کی رفاقت میں چودھری صاحب کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ میاں نواز شریف سچ سننا پسند نہیں کرتے اور صرف وہی سنتے ہیں جو انہیں پسند ہو۔ اسی وجہ سے خوشامدیوں نے نواز شریف کے گرد گھیرا ڈال دیا اور یہ بات چودھری نثار کہہ چکے ہیں کہ حالات کو اس حد تک پہنچانے میں میاں صاحب کے مشیروں کا ہاتھ ہے۔ نواز شریف کے مشیروں میں دانیال عزیز جیسی جنرل پرویز مشرف کی باقیات شامل ہیں ۔ پارٹی کے حوالے سے چودھری نثار کا کہنا تھا کہ وہ کسی آوارہ ٹرین کے مسافر نہیں ہیں کہ ٹرین بدلتے پھریں، جس ٹرین میں چڑھ گئے، چڑھ گئے۔ لیکن پاکستان میں ٹرینیں الٹنے اور ’’ ڈی ریل‘‘ہونے کے حادثات پیش آتے ہی رہتے ہیں ۔ بہرحال پارٹی سے وابستہ رہنے کا فیصلہ مستحسن ہے ورنہ تو سیاست دان عموماً یہ اندازہ لگا کر کہ وہ جس ٹرین میں سوار ہیں ، وہ کسی منزل پر نہیں پہنچنے والی، ٹرین اور پٹڑی بدل لیتے ہیں ۔ چودھری نثار ’’ یک در گیر و محکم گیر‘‘ کے قائل ہیں اور فی زمانہ سیاست دانوں میں یہ صفت کم یاب ہے۔ لیکن اگر پاناما کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا تو چودھری نثار کی اہمیت خود ہی ختم ہو جائے گی خواہ وہ اپنے تئیں نواز شریف کے پیچھے چٹان بن کر کھڑے رہیں ۔ جب ان کو اب کوئی نہیں پوچھ رہا تو بعد میں کون پوچھے گا۔ اور فیصلہ نواز شریف کے حق میں آیا تو بھی چودھری نثار اپنے منصب اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرہی چکے ہیں چنانچہ ایسی صورت میں بھی وہ ن لیگ کے لیے چلا ہوا کارتوس ہی ہوں گے۔ چودھری نثار نے اپنی پریس کانفرنس میں کئی باتیں چھپا لی ہیں جو شاید بعد میں سامنے آئیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاناما مقدمہ نواز شریف کے خلاف ایک سازش ہے جس میں دو سویلین اور دو فوجی شامل ہیں ۔ چودھری نثار نے ان کا نام نہیں بتایا۔ شہباز شریف سمیت ن لیگ کے رہنمائوں کی طرف سے چودھری نثار کو منانے کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں وہ بہت سی باتیں نہیں کرپائے۔ ممکن ہے کہ یہ باتیں وہ مستعفی ہونے کے بعد کریں ۔ پریس کانفرنس میں چودھری نثار نے اپنی بھی خوب تعریفیں کیں تاہم نواز شریف کو یہ مشورہ بھی دیا کہ فیصلہ خلاف آیا تو صبر و تحمل سے کام لیں اور ملک اور پارٹی کو پیش نظر رکھیں ۔ خدشہ یہ ہے کہ فیصلہ جو بھی آیا، ہنگامہ آرائی ہوسکتی ہے۔ فیصلہ نواز شریف کے خلاف ہوا تو ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا، اس پر ایک عرصے سے تبصرے ہو رہے ہیں ۔ آج سب کچھ سامنے آجائے گا۔