رحم دلی

2971

محمد یونس جنجوعہ
رحم دلی ایک اخلاقی خوبی ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ کسی شخص کو کمزور، بیمار، لاچار اور ضرورت مند دیکھ کر اس پر ترس کھانا اور حسب حال اس کی مدد کرنا رحم دلی ہے۔ رحم دلی کا دائرہ وسیع ہے۔ صرف انسان ہی نہیں بلکہ چرند پرند بھی رحم کے مستحق ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم زمین پر بسنے والی مخلوق پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (جامع ترمذی)
رحم کے اولین مستحق انسان ہیں خواہ وہ مومن ہوں یا کافر، فاسق وفاجر ہوں یا متقی و پرہیزگار، ان میں سے جو بھی تکلیف میں ہو یا ضرورت مند اور محتاج ہو اس پر رحم کھانا، حسبِ استطاعت اس کی مدد کرنا اور مشکل میں اس کے کام آنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ ہاں کافر اور مشرک پر رحم دلی کا بڑا تقاضا یہ ہے کہ اُسے کفر اور شرک سے نکال کر اسلام میں داخل کرنے کی بطریق احسن کوشش کی جائے، تاکہ وہ گمراہی سے نکل کر صراط مستقیم پر چل نکلے اور اس طرح جہنم کے عذاب کی بجائے جنت کا امید وار بن جائے۔ کوئی کافر، مشرک یا بدعمل کسی دنیاوی تکلیف، مصیبت یا بیماری کی وجہ سے امداد کا خواہاں ہو تو اس پر رحم کھانا بھی نیکی ہے۔ انسان تو انسان کوئی جانور بھی تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کر کے اسے مصیبت سے بچانے کی کوشش کرنا بھی نیکی ہے، کیونکہ وہ بھی اللہ کے کنبے کا ایک فرد ہے اور رحم کا مستحق ہے۔
ایک سفر میں صحابہ کرامؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ تھے۔ آپؐ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، اسی اثنا میں صحابہ میں سے کچھ نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی سرخ چڑیا ہے جس کے ساتھ دو بچے بھی ہیں صحابہ نے ان بچوں کو پکڑ لیا۔ وہ چڑیا آئی اور اپنے بچوں کے گرد منڈلانے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: اس چڑیا کے بچے پکڑ کر کس نے اس کو ستایا ہے؟ اس کے بچے اسے واپس کرو۔ چنانچہ صحابہ نے چڑیا کے بچے واپس کر دیے۔ (سنن ابودائود)
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے، وہاں ایک اونٹ تھا۔ جب اس اونٹ نے آپؐکو دیکھا تو ایسا ڈکرایا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لے گئے اور اس کی کنوتیوں پر اپنا دست شفقت پھیرا۔ وہ اونٹ خاموش ہوگیا۔ پھر آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ حضرت یہ میرا ا ونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس بے چارے بے زبان جانور کے بارے میں تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں، جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور زیادہ کام لے کر اس کو تکلیف پہنچاتے ہو۔‘‘ گویا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانور پر ترس کھایا اور اس کے مالک کو جانور پر رحم کرنے کی تاکید کی اور امت کو جانوروں پر رحم کرنے کا سبق دیا۔
مصیبت زدہ یا ضرورت مند انسان ہو یا جانور اُس کے کام آنا اور اس کو مشکل سے نکالنا اس قدر بڑی نیکی ہے کہ کبھی یہ نیکی انسان کی نجات کا باعث بن جاتی ہے۔
کوئی شخص کسی ضرورت کے لیے قرض لے مگر وہ اُسے بر وقت ادا نہ کر سکے اور قرض خواہ اُس پر ترس کھاتے ہوئے کچھ اور مہلت دے دے تو یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لیے رحمت کی دعا کی ہے۔ (صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص سے اس کی موت کے بعد پوچھا جائے گا کہ اپنی دنیوی زندگی پر نگاہ ڈال اور بتا تیرا کوئی نیک عمل ہے جو تیرے لیے وسیلۂ نجات بن سکے؟ وہ عرض کرے گا کہ میرے علم میں میرا کوئی ایسا عمل نہیں، سوائے اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ کاروبار اور خرید وفروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا تو میرا رویہ ان کے ساتھ درگزر اور احسان کا ہوتا تھا۔ میں مال دار کو بھی مہلت دیتا اور غریبوںاور مفلسوں کو تو معاف بھی کر دیتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں داخلے کا حکم فرما دے گا۔ (صحیح بخاری)
حقیقت یہ ہے کہ رحم کھانا اللہ رب العزت کی صفت ہے‘ وہ الرئوف اور الرحیم ہے۔ انسانوں کا رحم دلی کا سلوک اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر بڑی رحمت والا خدا رحم کرے گا۔ زمین پر بسنے والی اللہ کی مخلوق پر تم رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ابی دائود، جامع ترمذی)
جن سات آدمیوں کو قیامت کے دن عرش کا سایہ ملے گا ان میں ایک وہ شخص بھی ہے جس نے تنگ دست مقروض پر رحم کرتے ہوئے اس کو مزید مہلت دی۔ (ترمذی)
ایک شخص جا رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک درخت کی ٹہنیاں سڑک پر جھکی ہوئی ہیں جو آنے جانے والوں کے لیے تکلیف کا باعث ہیں، اسے مخلوقِ خدا کی تکلیف گوارا نہ ہوئی اور اُس نے ارادہ کیا کہ وہ ان شاخوں کو کاٹ کر مسافروں کے لیے راستہ صاف کر دے گا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ رحمن ورحیم اللہ تعالیٰ اس کی اس رحم دلی پر اتنا خوش ہوا کہ اس کی بخشش فرما دی۔ اس کے برعکس کسی انسان یا جانور کو تکلیف میں دیکھ کر جس شخص کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اُس سے ناراض ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے الصادق والمصدوق ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپؐ فرماتے تھے کہ رحمت کا مادہ تو صرف بدبخت کے دل سے ہی نکالا جاتا ہے۔ (جامع ترمذی)
سنگدلی ایک روحانی مرض ہے۔ آپؐسے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا یہ علاج فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔ (احمد)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بے درد اور بے رحم عورت اس لیے جہنم میں گرائی گئی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر بھوکا مار ڈالا، نہ تو اسے خود کچھ کھانے کو دیا، اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتی۔ (بخاری و مسلم) بعض لوگ مرغوں کو لڑاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ مرغے ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے کتے پال ہوتے ہیں، وہ ان کی لڑائی کرواتے ہیں اور اس منظر کو دیکھتے اور خوش ہوتے ہیں۔ جانوروں کی لڑائی کا یہ کھیل سنگ دل لوگوں ہی کا مشغلہ ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ تو جانوروں کی ان لڑائیوں پر شرطیں لگاتے ہیں جو برائی پر ایک اور برائی ہے۔