رئیل اسٹیٹ شعبے میں ایکسپورٹرز کی سرمایہ کاری سے برآمدات میں کمی ہوئی‘ حسن اقبال

244

کراچی(اسٹاف رپورٹر) رئیل اسٹیٹ شعبے میں ایکسپورٹرز کی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے برآمدات میں کمی ہوئی،بجٹ میں رقم مختص نہ کیے جانے کے باوجود گزشتہ مالی سال وزیراعظم کے اعلان کردہ برآمدی پیکیج کی مد میں 3 ارب روپے ادا کیے گئے، 10 فیصد برآمدات بڑھانے کی ذمہ داری ایکسپورٹرز نے خود لی تھی لیکن یہ اُن کے بس کی بات نہیں، 10لاکھ روپے سے کم کے ریفنڈز کی ادائیگی کردی گئی ہے بقیہ 15 اگست تک ادا کردیے جائیں گے،حکومت جی ایس پی پلس میں اضافے کی کوشش کررہی ہے۔یہ بات وفاقی سیکرٹری ٹیکسٹائل حسن اقبال نے جمعرات کوپی ایچ ایم اے ہائوس میں ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ مختلف ایسوسی ایشنز کے نمائندوں اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پرپی ایچ ایم اے کے چیف کوآرڈینیٹرجاوید بلوانی نے بھی خطاب کیا جبکہ اسلم احمدکارساز،ریاض احمد،خواجہ عثمان، رفیق گوڈیل اور دیگرصنعتکار بھی موجود تھے۔سیکرٹری ٹیکسٹائل نے کہا کہ 180 ارب روپے کا برآمدی پیکیج 18 ماہ کے لیے ہے جس میں 140 ارب روپے کا نقد برآمدی پیکیج ٹیکسٹائل سمیت تمام صنعتوں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ پیکیج میں 40 ارب روپے ری بیٹ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ حکومت برآمدی پیکیج کی بروقت ادائیگی یقینی بنارہی ہے لیکن لیکن برآمدی شعبے کو بھی اپنی ذمے داریاں نبھانی چاہئیں۔ پیکیج کے اعلان سے قبل ایکسپورٹرز نے خود ہی برآمدات میں 10 فیصد اضافے کی ذمے داری لی تھی، حالانکہ میں انہیں اس سے روکتا رہا کہ آپ ایسا کوئی وعدہ نہ کریں جس کو پورا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ میرے خیال میں 10 فیصد ایکسپورٹ بڑھانا برآمدی شعبے کے بس کی بات نہیں اور میری یہ بات اس وقت درست ثابت ہورہی ہے جب برآمدی شعبہ خود ہی اس میں کمی کی بات کررہا ہے۔ اس سلسلے میں وزارت ٹیکسٹائل حکومت سے درخواست کرے گی لیکن اس کو منظور کرنا یا نہ کرنا وزیراعظم کا استحقاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں رقم مختص نہ ہونے کے باوجود وزیراعظم برآمدی پیکیج کی مد میں 3 ارب روپے ادا کیے اور رواں سال بھی 4 ارب روپے اس مد میں جاری کیے جاچکے ہیں۔ رواں سال جون میں ملکی برآمدات میں 16 فیصد اضافہ خوش آئند ہے۔ سیکرٹری ٹیکسٹائل کا کہنا تھا کہ ویلیو ایڈیشن سے ملکی برآمدات میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن بہت سے ایکسپورٹرز کی جانب سے خام مال بیچ دیے جانے سے نقصان ہورہا ہے۔ برآمدات میں کمی کی بڑی وجہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر بھی ہے۔ جب رئیل اسٹیٹ شعبے نے تیزی سے ترقی کی تو ایکسپورٹرز نے اس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی، جس میں بہت سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز بھی شامل ہیں۔ حالانکہ انہوں نے قرض و دیگر مراعات برآمدات کے سلسلے میں حاصل کی تھیں۔ ایکسپورٹرز برآمدات بڑھانے کی تو بات کرتے ہیں لیکن اس طرح کے مسائل جس سے وہ خود بھی بخوبی آگاہ ہیں کے سدباب کے لیے آگے نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ حکومت اس میں کمی کے لیے کوشش کررہی ہے۔ جلد ہی یوٹیلیٹی بلز میں کمی کی خوشخبری برآمدی سیکٹر کو دی جائے گی۔ حسن اقبال نے کہا کہ 10 لاکھ روپے سے کم کے ریفنڈ کلیمز کی ادائیگی کردی گئی ہے۔ اب 15 سے 20 ارب روپے کے ریفنڈز رہ گئے ہیں جو رواں سال 15 اگست تک ادا کردیے جائیں گے۔ انہوں کہا کہ برآمدی سیکٹر کی بڑی ڈیمانڈ جی ایس پی پلس میں اضافے کے لیے وزارت تجارت بھرپور کوشش کررہی ہے۔ توقع ہے کہ یورپی یونین اس میں مزید اضافہ کردے گی۔ قبل ازیں پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا کہ برآمدی پیکیج کے اعلان کے باوجود فنڈز جاری نہیں کیے جارہے، جس کے بعد ایکسپورٹ بڑھانا ممکن نہیں۔ حکومت ہم سے سے تجاویز تو لیتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ 2009ء میں جب ٹیکسٹائل پالیسی کے بعد فنڈز جاری کیے گئے تو اگلے ہی سال ملکی برآمدات میں 35 فیصد اضافہ ہوگیا لیکن اس کے بعد فنڈز ریلیز نہ کیے جانے کے باعث برآمدات پھر گر گئیں۔ پاکستان میں پیداواری لاگت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے جس کے باعث عالمی سطح پر مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت برآمدی صنعت کے لیے بجلی، گیس اور پانی کے ٹیرف الگ مقرر کرے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کا ملکی برآمدات میں 50 فیصد حصہ ہے لیکن کراچی کے صنعتکاروں سے ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ یوٹیلٹی بلز وصول کیے جاتے ہیں۔ کراچی پانی کا ٹیرف 357 روپے 1000 گیلن ہے جبکہ پنجاب میں 1000 گیلن پانی 53 روپے اور بلوچستان میں 40 روپے کا ملتا ہے جو کراچی کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے برآمدی پیکیج میں صرف 33 ارب روپے دیے ہیں جبکہ 140 ارب روپے ایکسپورٹ سیکٹر کی جانب نکلتے ہیں۔ اگر حکومت ہماری ہی رقم ادا کردے تو بھی ملکی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوسکتاہے۔