سعودی عرب میں سب کچھ خراب نہیں

240

Muzafer Ejazسب کو پاناما کے فیصلے کی بھی فکر تھی۔ اچانک ایک ساتھی محمد علی نے سوال کرلیا کہ جماعت اپنا ٹی وی کیوں لانچ نہیں کرتی۔ اس سوال پر دوسرا دھچکا یہ لگا کہ امیر محترم نے ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ آپ جواب دیں۔ ہم کیا جواب دیتے ایک بڑے اخبار کا اداریہ لکھ دیا۔ کہ بات ٹھیک ہے لیکن اس میں مشکلات بھی ہیں اور یہ ہونا چاہیے لیکن جب ہوسکتا تھا ہوا نہیں اب ہو نہیں سکتا۔ بہر حال ایسا ہوجائے تو اچھا ہی ہے۔ اس جواب اور بات سے قطع نظر یہ بات ہے سوچنے کی۔۔۔ لیکن اس میں صبر اور تحمل کی سخت ضرورت ہوگی۔ کسی کو دوچار کروڑ میں چینل بنتا نظر آتا ہے تو کوئی ایک مکان کی قیمت میں چینل بنانے کے منصوبے رکھتا ہے۔ سب ٹھیک۔ لیکن یہ صندل ہے۔ اس کا رگڑنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے۔ بہر حال عیدالفطر کے دوسرے روز مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ ایک اچھی بس کا انتظام کیا۔ بس اچھی تھی۔ سیٹوں کا ذکر نہیں۔ مدینہ منورہ پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا۔ ہوٹل میں پہلے سے براجمان لوگ کمرہ خالی نہیں کررہے تھے۔ ہمارے ایجنٹ نے ساتھ لے جا کر ہمیں کمرے میں داخل کرایا اور دو نوجوان جو وہاں مقیم تھے ان سے کہا کہ یہ فیملی روم ہے آپ کو متبادل جگہ بھیج دیتے ہیں۔ بہر حال یہ انتظام بھی ہوگیا۔ یہاں ہوٹل کے عملے نے عدم تعاون کیا اس کا سبب وہی ہوگا کہ ہم اور ہمارا گروپ پاکستانی اور وہ بنگلا دیشی تھے۔ بہر حال مدینہ منورہ میں نماز جمعہ، سلام پیش کیا۔ ایک روز اسلامک میوزیم بھی گئے جس میں قرآنی آیات کی مدد سے کائنات کے نظام کو سمجھایا گیا تھا۔ نہایت خوبصورت اور زبردست ویڈیو گرافی اور آواز تھی۔ قرآن میوزیم نہ جانے کا افسوس رہا۔ یہاں جمعیت علمائے اسلام کے عبدالرزاق واسو بھی ملے انہوں نے کہا کہ صبح آپ کو زیارت کے لیے لے جاؤں گا ہم سمجھے کہ وہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر آئیں گے۔ لیکن جب وہ زیارت کی طرف لے جارہے تھے تو ساتھ نئی مصروفیات بھی چل رہی تھیں۔ ہم نے پوچھ ہی لیا آپ کی مصروفیات کیا ہیں۔ کہنے لگے کاروبار کرتا ہوں۔ مزدور کے طور پر آیا تھا آج کاروبار کررہا ہوں۔ تو وقت کیسے نکالتے ہیں؟ کہنے لگے زائرین کی خدمت کے لیے میں وقت نہیں نکالتا۔ وقت خود زائرین کے لیے نکل آتا ہے۔ ہمیں سبعہ مساجد، احد، شہدائے احد، حضرت سلمان فارسیؓ کے باغ، بیر حرس اور دیگر مقامات کی زیارت کے بعد مسجد قبا لے جارہے تھے۔ خود ہی ایک مشورہ دیا کہ مسجد قبلتین پہلے چلیں۔ اس کے بعد عصر کی نماز قبا جا کر پڑھیں تا کہ پہلے دو نفل پڑھ لیں پھر قبا میں عصر کی نماز پڑھ لیں، مسجد قبا کے صحن میں اتارتے ہوئے کہا کہ میں ذرا ایک صاحب کو مسجد نبوی سے ہوٹل تک پہنچا کر آجاؤں۔ جتنی دیر میں ہم نے مسجد قبا میں دو نفل، تھوڑی تلاوت، آرام اور عصر ادا کی اتنی دیر میں وہ یہ کام کرکے آگئے۔
مزید گفتگو اور مصروفیت بھی ان کی یہی رہی۔ اسلام آباد سے کوئی صاحب آرہے ہیں ان کو لینے جانا ہے، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری موجود ہیں ان کی خدمت میں چائے لے جانی ہے۔ قاری عثمان بھی آئے ہیں پرانے دوست ہیں انہیں گھر میں ٹھیرایا ہے ان کا بھی اکرام کرنا ہے اور ہمیں بھی دیکھنا ہے۔ جب تک ہم جدہ میں رہے ان سے رابطہ رہا اور یہی سنتے رہے کہ آج صبح مدینہ سے مکہ آیا، رات جدہ بھی آنا ہوگا لیکن مہمان ساتھ ہوں گے۔ آخری روز تک وہ یہی کام کرتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا ان کا کاروبار کوئی اور چلا رہا ہے اور وہ خدمت کررہے ہیں۔ اللہ جزائے خیر دے۔
مدینہ منورہ کے بعد ہمارا پروگرام 8 روز جدہ میں قیام کا تھا جہاں ہمارے پرانے ساتھی ملاقات کے لیے بے چین تھے اردو نیوز کے احباب تھے۔ اردو نیوز سے دلی وابستگی یوں بھی ہے کہ اس کی بنیاد رکھنے میں ہماری مساعی بھی شامل تھیں۔ محمد المختار الفال جب پاکستان آئے تو صلاح الدین حیدر کے ذریعے ایک ٹیم بنا رہے تھے اور صلاح الدین حیدر ہمارے مشورے سے ٹیم بنارہے تھے یہ اور بات ہے کہ مختار الفال دو اور ذرائع کے تعاون سے مزید دو ٹیمیں بنارہے تھے۔ بہرحال جدہ میں ایک پاکستانی ساتھی نے اپنا فلیٹ پیش کردیا کہ کسی ہوٹل میں رہائش کی ضرورت نہیں بعد میں انہوں نے بتایا کہ حاجیوں اور معتمرین کی خدمت کے لیے ہمارے فلیٹ حاضر رہتے ہیں اور اگر ہم بیرون ملک بھی ہوں تو ہمارے فلیٹ کی چابی یہیں کسی کے پاس ہوتی ہے۔
جدہ میں جس تنظیم نے سب سے پہلے 17 برس قبل ہم سے تعارف کرایا تھا اور تعلقات قائم کیے تھے اسی تنظیم نے سب سے پہلا استقبالیہ دیا ایک سمپوزیم منعقد کیا اور ہمیں مہمان خصوصی بنادیا۔ یہ تنظیم مجلس محصورین پاکستان (پی آر سی) ہے۔ پی آر سی کے روح رواں انجینئر احسان الحق ہیں ان کا دل و گردہ ہے کہ برسہا برس سے اس انسانی مسئلے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ سابق سعودی سفارت کار علی الغامدی بھی دل و جان سے اس مسئلے کو زندہ رکھنے میں فعال ہیں۔ اس سمپوزیم کی روداد تو شائع ہوچکی لیکن جو کچھ وہاں صاحب صدر علی الغامدی کے ساتھ ہورہا تھا اس پر ہم نے ان کو تسلی دی۔ ان کے لیے وقت ہی نہیں بچ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مغرب کی نماز ہی پڑھائیں گے۔ ہم نے کہا کہ گھبرائیں نہیں ہم ’’اَحسن الکلام ماقل ودَلّہ‘‘ کے مصداق مختصر بات کریں گے اور مختصر بات ہی کی۔ انہوں نے اس کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر انیس کے گھر سابق مدیر جسارت محمد صلاح الدین سے بھی مل چکے ہیں۔ وہ اس وقت کراچی قونصل خانے میں متعین تھے۔
(جاری ہے)