موروثی اقتدار

215

Edarti LOHمیاں نواز شریف تو فی الوقت نا اہل قرار دے دیے گئے۔وہ اپیل میں یا نظر ثانی کی طرف جاتے ہیں اس کا فیصلہ ہو تو گیا ہے لیکن ان کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت بھی یہی پانچ جج کریں گے جنہوں نے متفقہ طور پر نااہل قرار دیا ہے۔ چنانچہ امکان یہی ہے کہ فیصلہ برقرار رہے گا۔فی الوقت تو پاکستان میں حکومت نا م کی کوئی چیز ہی نہیں ۔ نہ وزیر اعظم ہے نہ ان کی کابینہ اور وزراء۔ معزز عدالت کی طرف سے جو فیصلہ آیا ہے وہ قانونی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے ۔ نواز شریف حکومت کی بدعنوانی اور لوٹ مار پر کوئی دو رائے نہیں ہیں اور ان کے کھاتے میں بڑے بڑے اسکینڈل ہیں ۔ 16آف شور کمپنیاں ہیں ، لندن میں قیمتی فلیٹس ہیں ۔ ان کی گرفت نہیں کی گئی حالاں کہ پاناما مقدمے کا آغاز ہی اس نکتے پر ہوا تھا کہ ان اثاثوں کے لیے رقم کیسے فراہم کی گئی؟ یہ پاکستان سے باہر بھیجی گئی تو اس کا حساب دیں جسے منی ٹریل کہا گیا ہے۔ مگر جس بات پر پکڑ ہوئی وہ کچھ اور معاملہ ہے کہ دبئی میں اپنے بیٹے کی کمپنی میں ملازمت کی اور 10ہزار درہم تنخواہ مقرر ہوئی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ صرف کاغذوں پر ہے، تنخواہ وصول نہیں کی گئی۔ عدالت عظمیٰ کا موقف ہے کہ وصول کی یا نہیں لیکن اس کا شمار اثاثوں میں ہوتا ہے اور یہ اثاثہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ ماہر قانون ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ ’’وصول نہ کرنے پر بھی نا اہلی حیران کن ہے ؟ ‘‘عاصمہ جہانگیر بھی کہتی ہیں کہ نا اہلی کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے۔ سابق جسٹس وجیہ اور دیگر ماہرین کا موقف بھی یہی ہے کہ 5رکنی بینچ نے نا اہلی کے لیے جن وجوہات کا سہارا لیا وہ کمزور ہیں ۔ نواز شریف پر اربوں روپے کی لوٹ مار کا الزام ہے لیکن کیا تحقیقات میں اس لوٹ مار کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا اور ایک نکتے پر پکڑ ہوگئی۔ ن لیگ کی اتحادی جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم تو سمجھے تھے بہت بڑا ملبہ گرے گا، پیسا کمانے اور کرپشن میں نا اہل ہوں گے لیکن پیسا نہ کمانے کی پاداش میں نا اہل ہوگئے۔ یہ قانون قدرت ہے اور بقول صدر مملکت جناب ممنون حسین ’’ بہت سارے لوگ جو یہ سوچ کر اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ہم نے اپنی بچت کابندوبست کرر کھا ہے لیکن آپ دیکھیے گا کہ کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے، یہ اللہ کانظام ہے ۔‘‘ انسان کو کسی جرم میں سزا ملتی ہے اور وہ دوہائی دیتا ہے کہ یہ جرم تو اس نے کیا ہی نہیں ۔ لیکن سزا اس کے ان جرائم کی ہوتی ہے جو پکڑ میں نہیں آئے۔عدالت کے فیصلے اور اس پر ردعمل تو چلتا ہی رہے گا اور ابھی مزید فیصلے آئیں گے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ اب بڑے بڑے ڈاکو پکڑے جائیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو لیکن عمران خان اور ان کے رفقا بھی زد میں ہیں اور ان کے خلاف بھی فیصلہ آسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا اس وقت بھی وہ یہی کہیں گے کہ بڑے بڑے ڈاکو پکڑے گئے۔ فی الوقت تو یہ معاملہ زیر غور ہے کہ نواز شریف کی جگہ کون لے گا۔ نواز شریف کی صدارت میں لیگی رہنمائوں کے اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ ’’ شریف کی جگہ شریف ‘‘ ہی کو لایا جائے اور چھوٹے میاں شہباز شریف کو آئندہ کا وزیر اعظم بنایا جائے۔یعنی اقتدار پر شریف خاندان ہی کا قبضہ رہے۔ شاید اس کو موروثی حکومت کہتے ہیں ۔ نواز شریف اپنے خاندان سے باہر کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں یا یہ گمان ہے کہ ’’ شریفوں‘‘ کے سوا کوئی اہل نہیں ۔ فی الوقت تو سابق وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیر اعظم بنایا جارہا ہے اور شہباز شریف قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے کے بعد وزیر اعظم بنائے جائیں گے۔ اس عمل میں 45دن لگیں گے تب تک وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی رہیں گے۔ اپنے تمام درباریوں میں نواز شریف نے شاہد عباسی پر اعتماد کیا ہے ورنہ تو اس منصب کے کئی امیدوار تھے، خاص طور پر وہ سب جو عدالت سے باہر نواز شریف کا مقدمہ زبان درازی کے بل پرلڑتے رہے۔ شاہد خاقان نے گالم گلوچ کے اس مقابلے میں حصہ نہیں لیا اور وہ نسبتاً سنجیدہ شخص ہیں ۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو مرکز میں لاکر وزیر اعظم بنانے کا منصوبہ ہے تو اس سے پنجاب میں بڑی افرا تفری ہوسکتی ہے۔ شہباز شریف گزشتہ 9سال سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں اور انہوں نے مختلف دھڑوں کو قابو میں رکھا ہے۔ لیکن ان کے ہٹتے ہی مختلف گروپوں میں اقتدار کے لیے رسہ کشی شروع ہو جائے گی۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور سابق ہوجانے والے وزیر مملکت عابد شیر علی میں پہلے ہی کھینچا تانی اور گروہ بندی ہے۔ دیگر شخصیات بھی وزارت علیا کے حصول کے لیے زور آزمائی کریں گی۔ شہباز شریف نے پنجاب خاص طور پر لاہور میں جو ترقیاتی منصوبے شروع کرر کھے ہیں وہ ہر چند کے متنازع ہیں لیکن شہباز کے ہٹتے ہی وہ ٹھپ ہو جائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس کے پاس پنجاب کا اقتدار ہوتا ہے وہی مرکز میں حکومت بناتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بھی پنجاب کے کاندھے پر چڑھ کر ایوان اقتدار میں پہنچے تھے۔ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا تو ان کی راہ میں بھی بہت سے مقدمات منہ کھولے کھڑے ہیں ۔ پاناما پیپرز میں بھی ان کا نام ہے اور سانحہ ماڈل ٹائون میں عوامی تحریک کے 14افراد کے بہیمانہ قتل میں بھی ملوث ہیں ۔ اس سانحہ کی عدالتی تحقیقاتی رپورٹ اب تک عام نہیں کی گئی کیوں کہ اس میں خود وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ شہباز کے ہٹنے سے ممکن ہے کہ جسٹس نجفی رپورٹ سامنے آ جائے۔ ابھی نواز شریف اور ان کے اہل خانہ و سمدھی الزامات کی زد میں ہیں اور ان کے فیصلے بھی جلد ہی ہوسکتے ہیں ۔ فی الوقت تو ان کے معاملات نیب کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ شریف خاندان ہی کے ایک فرد کو وزیر اعظم نامزد کرنے سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ یا تو مسلم لیگ ن سیاسی طور پر بانجھ ہے کہ شریف خاندان سے باہر کوئی اقتدار سنبھالنے کے قابل ہی نہیں یا پھر پارٹی پر صرف ایک خاندان کا قبضہ ہے جس طرح پیپلز پارٹی میں ہے۔ جب سیاسی جماعتوں ہی میں جمہوریت نہیں ہوگی تو ملک میں کیسے ہوگی؟