خوبصورتی اہم ہے یا ذہانت

665

غزالہ روشن
تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
نہ کرو بحث ہار جائو گی !
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
اگر حسن معرکہ ہائے زندگی سر کرنے کے لیے ہتھیار نہیں ہے تو کیا ذہانت ،زندگی کا پیچیدہ اور دشوار گزار سفرطے کرنے کے لیے زاد راہ بن سکتی ہے ۔
عصر حاضر میں مغربی روایتوں کا ظالم و بے باک غاصب ، حسن کے ساحر کو لیے اقدارو روایات کی جنگ جیتنے لایا ہے اور بساط کچھ یوں پلٹی ہے کہ اب بینائیاں مغلوب ہیں ، عقل و دانش زنجیر پا ہیں اور شرم و حیا کی شکست خوردہ ملکہ دینی اصولوں اور مشرقی اقدار کے شہنشاہ کے جنازے پر نوحہ کناں ہے اورحسن کے ساحر کا جادو سر چڑھ کربول رہا ہے ۔
معاشرتی رویوں کا تجزیہ کریں تو ہر جانب حسن ، ذہانت کو مات دیتا نظر آتا ہے اور حسن بھی وہ جو محض شہابی رنگت ، ستواں ناک ، پنکھڑی لب او ریشمی زلفوںتک محدود ہے ۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی میں حسن کی اہمیت جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس نے ذہین افراد کو ٹھٹک کر رک جانے پرمجبور کر دیا ہے ۔ ممکن ہے اس بات کو محض دیوانے کی بڑ سمجھا جائے لیکن ذرائع ابلاغ کی تصوراتی دنیا سے لے کر زندگی کے عملی تجربوں میں حسن کا طلسم ٹوٹتا نظرنہیں آتا۔ ذرائع ابلاغ پر محض ایک نگاہ غلط ہی ڈالی جائے تو حسن گلیمر اور فیشن کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی ہے کہیں رنگ پیراہن لیے حسن کا مجسمہ ایستادہ ہے تو کہیں دل کی دنیا زیر و زبر کرنے ، پیکر حسن حشر سامانیاں سمیٹے جلوہ گر ہے ۔
’’ خوب صورت بننے ‘‘ کا شور اس قدر ہے کہ معلومات جدید تقاضے اور سائنس کے بارے میں بتانے والے ذرائع ابلاغ کی آواز اس شور میں دب گئی ہے ۔
موجودہ دور میں زندگی کی تیز ترین دوڑ میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہیں اور دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب معاشی بوجھ بانٹنا ان کے لیے ضروری ہو گیا ہے مگر حالات کے تقاضوں سے مجبور ہو کر تنگدستی سے تنگ آ کر صنفِ نازک جب معاشی حالات سدھارنے کا عزم لیے میدان عمل میں آتی ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمی ڈگریوں اور قابلیت سے زیادہ ترو تازہ چہرے اور توبہ شکن سراپے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ابتداء میں تو ایک دھچکے کا سبب بنتی ہے مگر رفتہ رفتہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے جو موجودہ دور کی ’’ جدت پسندی‘‘ اور ’’ ترقی‘‘ کا تقاضا ہے ۔
اخبارات میں’’ ضرورت ہے کہ صفحات پر نگاہ ڈالی جائے تو ٹیچر ، کمپیوٹر آپریٹر ، رسیپشنسٹ یا سیکریٹری کے لیے دیے گئے اشتہارات میں قابلیت سے زیادہ پر کشش خوش شکل اور کم عمر پر زور دیاجاتا ہے ۔ اگر یہ سوال کی آجائے کہ کوئی مضمون پڑھانے ، کمپیوٹر پر دنیا بھر سے رابطہ کرنے لوگوں کو اپنے ادارے کے متعلق رہنمائی دینے یا ادارے کی سربراہ کے دن بھر کے کاموں کا نظام الاوقات ترتیب دینے میں خوب صورتی کا کیا کام ہے تو جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے تاثر اچھا پڑتا ہے ۔ یہ کس تاثر کی بات کی جاتی ہے ؟ بنت حوا کیا سامان آرائش ہے کہ خوب صورتی کا تاثر پیدا کرے ؟
اسی طرح زندگی کے اہم ترین فیصلے یعنی شریک حیات کے انتخاب کے لیے بھی پہلی ترجیح حسن ہوتی ہے ۔ چاند کے ٹکڑے کی تلاش میں گھر گھر کی خاک چھانی جاتی ہے ، لاکھوں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کو دیکھا اور رد کیا جاتا ہے اور ہزاروں آہیں سمیٹنے کے بعد گوہر مقصود مل ہی جاتا ہے اور کوئی چاند کا ٹکڑا گھر آنگن میں چاندنی بکھیرنے اتر ہی آتا ہے پھر یہ علیحدہ بات ہے کہ چاند کا یہ ٹکڑا کون کونسے چاند چڑھاتا ہے گویا زندگی کے اس اہم ترین فیصلے میں بھی کردار ، سیرت ، سلیقہ ، ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے ۔ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور حسن کا چڑھتا بینائیاں سلب کر لیتا ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان جیسا پسماندہ ملک جہاں پہلے ہی مسائل کا انبار ہے ، ان سطحی سوچوں اور مادی پیمانوں کے باعث اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ ہو رہا ہے ۔ حسن یا دولت نہ ہونے کے باعث جن لڑکیوں کو بار ہا بھیڑ بکریوں کی طرح دیکھا ، جانچا اور ٹھکرایا جاتا ہے وہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں یا پھر فطری و نفسیاتی تقاضوں کی تسکین کے لیے چور دروازے تلاش کر لیتی ہیں یا پھر ہمیشہ کے لیے کسی تاریک راہ پر چلنا ان کامقدر بن جاتا ہے مگر کیا یہ سیاہیاں اپنے مقدر میں لکھوانے کی وہ ذمہ دار ہیں یا معاشرے کو یہ بد نما بھیانک اور حیوانی رویے؟
اور معاشرے کے انہی بد نما رویوں کے باعث یہ خیال مزید تقویت حاصل کرتا ہے کہ زندگی میں حسن اور ذہانت میں سے حسن اولین ترجیح ہے او رپھر ذہانت ۔ ہمارے معاشرے میں ان لوگوں کی زیادہ اہمیت ہے جو بجلی کے کڑا کے کی طرح آنکھوں کو پل بھر میں خیرہ کر دیں ۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ بجلی بصارت سلب بھی کر سکتی ہے یا جلا کر خاکستر بھی کر سکتی ہے اور ان لوگوں کو قطعاً اہم نہیں سمجھا جاتا جو حسن کے ہتھیاروں سے تو لیس نہ ہوں مگر جو زبان و بیان ، عقل و دانائی اورنرمی و محبت کے باعث نرم پھوار کی طرح دل کی مٹی میں جذب ہوتے ہیں اور جن کی شخصیت کی خوشبو صدیوں نہیں بھولتی ۔ مگر شاید ناقدری اور سطحی رویے روبہ زوال معاشرے کی علامتیں ہوتی ہیں اور شاید ہمارا معاشرہ زوال کی جانب ہی رواں ہے ۔