اسلام میں خواتین کے معاشی حقوق… جدید یا فرسودہ؟

1517

بینا حسین خالدی
اسلام نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے خواتین کو عورت کو معاشی حقوق دیے ان حقوق میں بہت سی چیزیں شامل ہیں نان و نفقہ، حق مہر، وراثت میں حصہ کے علاوہ ایک عاقل و بالغ عورت خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ وہ بغیر کسی پابندی کے اپنی مرضی سے اپنے مال کے معاملے میں وہ تمام فیصلے کرسکتی ہے جو ایک مرد کرسکتا ہے۔ اسلام نے عورت کو جائدادرکھنے اور اس کی خرید و فروخت کرنے کا حق آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے دے دیا تھا جبکہ برطانیہ میں یہی حق 1970ء میں آکر ملا۔ چونکہ عورت کو یہ حقوق اسلام نے چودہ سو برس پہلے دے دیے تھے لہٰذا ہم انہیں عورت کے قدیم حقوق بھی کہہ سکتے ہیں لیکن کیا قدیم ہونے کی وجہ سے یہ حقیقت فرسودہ ہوگئے ہیں؟ کیا یہ حقوق جدید ترین معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔
جہاں تک عورت کے روزی کمانے کا تعلق ہے تو شرعی حدود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسے ذرائع روزگار اختیار کرنے کی دین اسلام اجازت دیتا ہے جن میں پردے و حجاب کی فرضیت کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو اس لیے قدرتی بات ہے کہ دین اسلام عورت کو کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے گا جس میں عورت کے حسن و جمال کو نمایاں کیا جائے یا اس کی آواز کے لوچ اور نغمگی کو نا محرم کانوں کے لیے دلبستگی کا سامان بنادیا جائے خواہ یہ آواز نعت رسول مقبولؐ کو پیش کرنے میں ہی سنائی یا سنوائی جاتی ہو۔
اسی طرح بہت سے کام ایسے ہیں جو اسلام نے مردوں کے لیے بھی حرام کردیے ہیں ظاہر ہے کہ ایسے کاموں کی اجازت عورت کو بھی نہیں دی جاسکتی ہے مثال کے طور پر شراب کے کاروباری سے تعلق پیشے یا قمار بازی سے تعلق رکھنے والے پیشے یا سودی معیشت سے تعلق رکھنے والے تمام ادارے اور وہ تمام عہدہ اور آسامیاں جو اس کاروبار کو چلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہوں۔ بیمہ ایجنٹ، لائف انشورنس کمپنی آلات موسیقی تیار کرنے، فروخت کرنے اور استعمال کرنیوالی کمپنیاں اور ادارے، تصویر سازی، بت اور مجسمہ سازی کی ضاعی کے ادارے، پرائز بانڈز انعامی اسکیمز اور قسطوں پر مصنوعات کی فروخت کے تمام کاروبار بھی چونکہ سودی طرز معیشت پر چلائے جاتے ہیں اس لیے وہاں بھی خواتین خواہ پردے اور حجاب ہی میں رہ کر ملازمت کریں۔ ایسے پیشے دین اسلام نے چونکہ حرام قرار دیے ہیں اس لیے ان کاموں کی بھی خواتین کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایک حقیقی اسلامی معاشرے میں بہت سے پیشے ایسے ہیں جنہیں خواتین اختیار کرسکتی ہیں مثال کے طور پر طب کا پیشہ ہی دیکھیے خواتین کے علاج کے لیے ہمیں ماہر خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی ضرورت ہے اسی طرح تعلیم کے شعبہ میں خواتین اساتذہ کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ دونوں ہی شعبے موجود تو ضرور ہیں لیکن ان شعبہ جات میں حصول ملازمت کے عمل کو مشکل سے مشکل ترین بنا دیا جارہا ہے جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے اور عورتوں کی شرح پیدائش میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان شعبہ جات میں کام کرنے کے لیے ڈاکٹروں، نرسوں اور خواتین اساتذہ کی ضرورت میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ ان شعبہ جات سے متعلقہ تعلیمی استعداد اور مہارتوں کے حصول میں بھی خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے، غریب یا متوسط طبقے کی بچیاں تو ایسی مہنگی تعلیم کے حصول کا تصور بھی نہیں کرسکتی ہیں اور شعبہ تعلیم میں بھی رشوت، سفارش اور اقربا پروری کے منفی رحجانات نے ضرورت مند خواتین کے لیے اس شعبے کے دروازے ہی بند کردیے ہیں۔ لا محالہ ضرورت مند خواتین کو حصول ملازمت کے لیے ان اداروں یا کمپنیوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں پردہ و حجاب کا اہتمام قطعی ممنوع قرار دیاگیا ہے یا اگر حجاب کیا بھی جاسکتا ہے تو وہاں کا مخلوط ماحول با حجاب اور باوقار خواتین کے لیے قطعی مناسب نہیں ہوسکتا ہے۔گویا پاکستانی معاشرے میں انتظامی اداروں اور حکومتی پالیسیوں کے باعث با حجاب خواتین کے لیے نیکی برباد گناہ لازم والا ماحول بنادیا گیا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ خواتین کے لیے ہوم انڈسٹری، کاروبار، بیوائوں کے لیے وظائف اور کفالت یتامیٰ کے پروگرامز کو حکومتی سرپرستی اور ترجیحی منصوبہ جات کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔
اسی طرح اسلام عورت کو کاروبار کی اجازت دیتا ہے لیکن جہاں نا محرموں سے اختلاط کا موقع ہو وہاں اسے کسی محرم مرد مثال کے طور پر باپ، بھائی، شوہر وغیرہ کی مدد حاصل کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ اپنے دور میں مکہ کی مالدار کاروباری خواتین میں شمار ہوتی ہیں لیکن نبی کریمؐ ان کی جانب سے کاروباری ذمہ داریاں سرانجام دیتے تھے۔ دور پر فتن کے آج کے حالات کے مطابق بھی خواتین کو کاروبار کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق ڈیڑھ ہزار سال پرانا سہی لیکن فرسودہ نہیں ہے بلکہ جدید دور کے حالات کے عین مطابق ہے کہ آج تو عورت کو محرم رشتے داروں کے تحفظ اور معاونت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ لہٰذا جو عورتیں یا جو ادارے اور کمپنیاں پردے حجاب اور محرم کی معیت کی شرعی شرائط کو فرسودہ قرار دے کر ان پابندیوں سے آزادی چاہتے ہیں دراصل وہ شیطان اور اس کے آلہ کاروں کے لیے وہ راستہ آسان کرنا چاہتے کہ جس کے ذریعے ایک اکیلی اور بے حجاب عورت ان کے لیے لقمہ تر بن سکے۔
عام حالات میں دین اسلام خواتین کے لیے گھر کے اندر خاندان کے حصار میں رہتے ہوئے ہی سب سے زیادہ معاشی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ دین اسلام بنیادی طور پر معاش کی ذمہ داری خاندان کے مرد پر عائد کرتا ہے۔ عورت پر ایسی کسی ذمہ داری کا بوجھ ڈالا ہی نہیں گیا ہے لیکن خصوصی حالات یتیمی، لاوارثی، محرم رشتے داروں کی لا تعلقی، بیوگی، شوہر کی معذوری و بیروزگاری کی صورت میں بھی دین اسلام کے عطا کردہ معاشی حقوق جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ عورت خواہ ملازمت کرے یا کاروبار، گھر میں رہتے ہوئے ہی کسی ہنر کو روزگار کا ذریعہ بنائے یا گھر سے باہر بیٹھ کر اپنی مہارتوں کا معاوضہ کسٹمر خواتین سے وصول کرے۔ بیوٹیشن بنے یا بوتیک چلائے شرعی حدود و ضوابط اس کو ان کاموں سے روکنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ اس کے تحفظ کے لیے وضع کی گئی ہیں۔ جہاں جدید دور میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل، مہنگائی، بے روزگاری، نفسا نفسی اور بد عنوان حکمرانوں کی بد انتظامی و غفلت کے باعث خواتین معاشی خود کفالت کی زیادہ ضرورت محسوس کرتی ہیں وہاں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، شہوت پرستی، فحاشی و عریانی اور بیہودگی کے مقابلے میں خواتین کو اپنے وقار و عزت کے تحفظ کی ضرورت بھی زیادہ محسوس ہونی چاہیے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دین اسلام نے وہ تمام ہی حقوق جو خواتین عطا فرمائے تمام کے تمام جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہی ہیں۔
شادی شدہ خواتین کے لیے دین و شریعت نے اور زیادہ معاشی تحفظ عطا فرمایا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی زیر کفالت رہتی ہے اور جیسے چاہے شوہر کی کمائی کو اپنے تصرف میں لاسکتی ہے۔ ایک مرتبہ ہندہ بنت عقیہؓ نے رسول پاکؐ سے شکایت کی کہ میرے شوہر (ابو سفیان) بخیل ہیں اور مجھے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بچوں کی کفالت کے لیے کافی ہو کیا میں ان کی لا علمی میں ان کے مال میں سے کچھ لے لوں؟ آپؐ نے فرمایا تم دستور کے مطابق اتنا لے سکتی ہو جو تمہارے اور بچوں کے لیے کافی ہو۔ اس حکم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بخیل مرد کی بیوی جائز ضروریات کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے لے سکتی ہے۔ نہ ہی یہ خیانت ہوگی اور نہ ہی چوری کرنا کہلائے گا۔ دوسری طرف مردوں کے لیے بھی اسلامی تعلیمات و ہدایات واضح ہیں اور بطور تاکید فرمایا گیا ہے کہ ’’عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو‘‘ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔ عورت کا حق مہر خوشدلی سے ادا کرو اور نان و نفقہ کی ادائیگی تو اس وقت تک بھی فرض قرار دی گئی ہے کہ طلاق کی صورت میں بھی دوران عدت شوہر اپنی بیوی کو کھانا کپڑا مہیا کریگا جسے وہ چھوڑ چکا ہے۔ ان تمام تعلیمات کی روشنی میں خواتین دین و شریعت کی عطا کردہ ان تمام تحفظات اور رعایتوں کا فائدہ اٹھائیں شوہر خرچ کرنے میں بخیل ہے تو اس کا حل گھر میں رہتے ہوئے نکالنے کے بجائے گھر سے باہر ملازمتوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری شوہر ہی پر ڈالے رکھیں۔ حصول روزگار کے لیے در بدر بھٹکنے کے بجائے اپنے ہی گھر کی چار دیواری کے اندر ثابت قدمی سے اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کریں جبکہ اللہ کا رسولؐ آپ کو اجازت دے رہا ہے کہ شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر رقم نکال لینے کا بھی آپ کو پورا پورا حق حاصل ہے۔ گھر سے باہر اداروں اور کمپنیوں اور نا محرموں کی غلامی سے بہتر ہے اپنے شوہر کی وہ غلامی اختیار کئے رکھیں جو در حقیقت غلامی بھی نہیں بلکہ اپنے ملکیتی و معاشی حقوق کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔ وہ رعایتیں اور تحفظات جو اللہ اور اس کا رسول آپ کو عطا فرماتے ہیں ان کا بہترین استفادہ آپ گھر کے اندر ہی رہ کر اٹھا سکتی ہیں اور میدان عمل چھوڑ کر اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائیں گی تو شوہر بھی ذمہ داریوں سے اور زیادہ آزاد ہوتا چلا جائے گا۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ عقل مند عورت شوہر کی غلام بن کر اس پر حکومت کرتی ہے اور بے وقوف عورت شوہر کو غلام بناکر ایک غلام کی بیوی بنتی ہے۔ امید ہے میری معزز و محترم بہنیں سمجھ ہی گئی ہوںگی۔ لہٰذا دین و شریعت کے عطا کردہ معاشی حقوق کبھی بھی فرسودہ نہیں ہوتے ہیں یہ ہر دور کی عورت کے لیے اس کے حالات اور ضروریات کے عین مطابق ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ بہترین روزی رساں تو صرف اللہ ہی ہے۔ اللہ پر توکل کیجئے اور اپنے لیے رب العزت کی بارگاہ سے صبر و قناعت کی دولت مانگیے۔ جس عورت میں اپنی عزت و وقار کا احساس جتنا زیادہ شدید ہوگا وہ اتنی ہی قوت سے ہر اس ضابطے، رواج، کلچر، ترغیب و تحریص کو رد کرتی چلی جائے گی جو اس کی عزت نفس اور حرمت و وقار کے خلاف ہوگا۔ خواہ یہ عناصر اپنے اندر کتنی ہی پرکشش مراعات و معاشی مفادات لے کر اس کے سامنے رکھے جائیں۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو معاشی تنگدستیوں کی آزمائش میں صراط مستقیم پر ثابت قدمی اور حوصلہ عطا فرمائے (آمین)۔