دنیا میں پھیلتا اسلام اور مغرب کی غلط فہمیاں

420

سمیع اللہ ملک
افغانستان میں دنیاکی ایک سپرپاورسوویت یونین کوافغان مجاہدین کے ہاتھوں ایسی ناقابل یقین شکست ہوئی کہ بالآخراسی کے بطن سے چھ مزیدمسلم ریاستوں کاوجودمعرضِ وجود میں آگیا لیکن افغانوں کی اس عظیم الشان فتح کاسارافائدہ امریکااورمغرب کی جھولی میں جاگراجس کے بعد مشہور زمانہ امریکاکے یہودی سیکرٹری خارجہ ہنری کسینجرکے خفیہ ’’ورلڈ آرڈر‘‘کابھی انکشاف ہوگیاکہ دنیاپرمکمل حکمرانی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتاجب تک مسلمانوں کے اندرسے اسلامی ریاست اوراس کے حصول کے لیے جہاد کے تصورکو بزورختم نہیں کردیاجاتا۔یہی وجہ ہے کہ اپنے ان مکروہ مقاصد کے حصول کے لیے اس وقت عالم اسلام میں خانہ جنگی کا ماحول جاری وساری ہے۔ امریکااورمغرب اپنے مقاصدمیں پے درپے ناکامیوں کے بعد انتہائی بری طرح جھنجلا گئے ہیں۔ امریکاکی طرف سے ننگرہارافغانستان میں سب سے بڑے غیرجوہری بم کے حملے بعدشمالی کوریاکی آڑمیں چین اورروس کو خوفزدہ کرنے کے لیے جہاں کوریائی سمندی خطے میں بین البرالاعظمی ایٹمی میزائل پھینک کرقصرسفیدکے فرعون نے اپنے چہرے سے نقاب اتار پھینکا ہے۔
ایک لمحے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ القاعدہ اور دیگر گروپس کی جانب سے امریکااورمغرب کے خلاف جنگ کاسلسلہ بدستور جاری ہے،ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ اسلام کے نام پرگزشتہ عشروں کے دوران کیے جانے والے تمام حملے اسی جنگ کاایک ناگزیرحصہ تھے اوریہ کہ موجوہ تصادم جواب تقریباً 50 ممالک سے زائدتک پھیل چکاہے اورہزاروں لاکھوں افرادکی جانیں لے چکاہے جس میں سرفہرست افغانستان،عراق اور’عرب بہار‘ کے نام پرلیبیا، تیونس میں امریکااوراس کے اتحادیوں کی یکطرفہ جارحیت اورمسلمانوں کی آپس میں باہمی خونریزی (شام)کے واقعات بھی شامل ہیں یہ سب کچھ اس اعلان جہاد کافطری نتیجہ ہے جوان تنظیموں نے شروع کررکھا ہے۔اگر فی الواقع ایسی جنگ جاری ہے توواقعات اورشواہدکودیکھتے ہوئے 10 اسباب اوروجوہ ایسی ہیں جن کی بناپراسلام اورمسلمانوں کے خلاف امریکااوراس کے تمام اتحادیوں کی طرف سے جاری یہ جنگ کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپائے گی۔ یہ اسباب اور وجوہ درج ذیل ہیں۔
٭سب سے پہلا سبب تویہ ہے کہ غیرمسلم دنیا موجودہ واقعات کے جواز اور عدم جوازکے حوالے سے باہمی طورپراورسیاسی اعتبارسے بھی مکمل طورپر منقسم ہے۔ ان میں سے بعض غیرمسلم ممالک توایسے ہیں جنہوں نے ایسی کسی بھی جنگ کے وجود کوتسلیم کرنے سے یکسرانکارکردیاہے چنانچہ ان کے خیال میں ایسی کوئی جنگ کہیں بھی لڑی نہیں جارہی اوروہ اس بنیادپراسے مستردکرتے ہیں جبکہ ان کے برعکس چند ممالک اوراقوام سابق جوامریکی صدرجارج بش کے ہمنواہوگئے تھے کہ جوجنگ ہم لڑرہے ہیں وہ اکیسویں صدی کی ایک فیصلہ کن نظریاتی جنگ ہےچنانچہ ان منقسم اورمتضادآرا اور خیالات نے اس معاملے کومذاکرات مکالمے اورگفت وشنید سے لے کر جوہری ہتھیاروں تک کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پرزوردیااورپبلک ڈپلومیسی سے لے کر مسلمانوں کے اہم ترین مقامات پرقبضے کامشورہ بھی دیاجن میں مکہ کامقدس شہربھی شامل ہے۔ اس اختلافِ رائے نے ان دوطرح کے طبقات کے مابین مسئلے کوحل کرنے کی غرض سے بھی ایک وسیع خلیج پیدا کررکھی ہے چنانچہ ایک طبقے کاخیال ہے کہ اس جنگ کوبراہ راست مخالف جنگجو گروپوں تک لے جاناصحیح ہوگاجبکہ دوسراگروہ اس خیال کامخالف ہے۔ اس کاکہناہے کہ ایسی کسی بھی جنگ کاخواہ وہ داخلی شہری آزادیوں کے حوالے سے لڑی جائے یاپھرحریفانہ جیوپولیٹکل اندازوں کے پیش نظرجاری رکھی جائے،ہردوصورتوں میں ایسی کسی بھی جنگ کابظاہرکوئی جوازاورفائدہ نظر نہیں آتا۔
٭ دوسراسبب یہ ہے کہ واقعات اورشواہدکے پیش نظراسلام کوکسی بھی قیمت پر شکست سے دوچارنہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عالمی برادری اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی مجموعی قوت، طاقت اور استطاعت کا ابھی پوری طرح سے کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا۔ اس کے برعکس اس کی اہمیت کوگھٹاکردیکھااورپیش کیاجارہاہے۔اسلام کی نوعیت فطرت اورسرشت کو ٹھیک طورسے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جس کے مطابق بنی نوع انسان کے تمام مسائل کا کافی اورشافی حل اس کے پاس موجودہے چنانچہ اسلام کی روسے یہ بات خود انسانیت اوربنی نوع انسان کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے اندر اسلام کی حکمرانی کے تحت اپنی زندگی بسرکریں اس طرح مغرب کی جانب سے مسلمان ممالک میں مغربی جمہوریت کی بحالی اورفروغ کاتصورمحض مہمل اوربے معنی ہوکررہ جاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کاتصور اسلامی تعلیمات کے تناظر میں قطعی طورپرناقابلِ تسلیم ہے۔ اس کاثبوت خود اسلامی تاریخ میں بھی موجودہے۔ اسی طرح اسلامی تحریک کے فوجی اور سیاسی بازوؤں کو بھی ایک دوسرے سے علاحدہ اورالگ کرنے کاتصوربھی خاصامضحکہ خیزنظرآتاہے۔اس حوالے سے امریکی وزیردفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ کایہ بیان احمقانہ تھاکہ عراق میں لڑنے والے باغی مسلمان کسی بھی وژن سے محروم ہیں اسی لیے وہ شکست خوردہ ہیں۔ اس جنگ میں اگرواقعی اسے جنگ کہا جا سکتا تھا تو اس میں حقیقی شکست ان لوگوں کوہوئی جواس جنگ کو چھیڑنے کے ذمے دارتھے۔
٭اسلام کے مغرب کے مقابل ناقابل شکست ہونے کاتیسرا سبب یہ ہے کہ مغربی قیادت کی سطح جتنی بلندہونی چاہیے تھی اس قدر بلندنہیں۔ اس کے برعکس اس کی سطح بہت نیچی ہے بالخصوص موجودہ امریکی قیادت پرتو یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ یادکیجیے اسلامی احیااورنشاة الثانیہ کی نصف صدی کے دوران سفارتی سیاسی اورعسکری اعتبارسے اسلامی حکومتیں اپنے عروج پرتھیں،اس کے برعکس موجودہ امریکی حکومت اورانتظامیہ کے پاس کوئی اسٹرٹیجک سمت موجودنہیں ہے نہ ہی اس کے جنگی منصوبے کسی مشترکہ غوروخوض کے نتیجے میں جنگی ضروریات کو دیکھ کربنائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے مقاصد کی وضاحت کے لیے اس کے پاس موزوں اورمناسب زبان اورذریعہ اظہاربھی موجود نہیں ہے!یہاں مشہور فلسفی اینڈمنڈ برک کایہ قول یادآرہا ہے۔ مارچ 1775ء میں اس نے کہا تھا ’’ایک عظیم الشان سلطنت اور چھوٹے دماغ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتے‘‘ چنانچہ اسلام کے خلاف اس جنگ میں اگرواقعی اسے جنگ کہاجاسکے،مجھے برک کایہ قول سچ ہوتادکھائی دے رہا ہے کہ ایک عظیم الشان سلطنت چھوٹے دماغوں کے ساتھ کبھی نہیں چل سکے گی۔
٭ چوتھا سبب مغربی پالیسیوں کاایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہوناہے۔ان پالیسیوں کی انانیت کی کشمکش کوعجلت کے نتیجے میں ان افراد نے تیارکیا ہے جواسلام کے حوالے سے نہایت اشتعال انگیزروّیوں کے حامل ہیں۔ ان لوگوں میں اسلام سے خوفزدہ افرادبھی شامل ہیں جواسلام کے نام پریہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔ اس محاذجنگ کوبھی یہ پالیسی سازافراداپنی ذات کے فروغ کی غرض سے استعمال کررہے ہیں اوران میں سے بیشترکاخیال ہے کہ ان کی آرا اورخیالات بے حداہمیت کے حامل ہیں بہ نسبت ان مسائل کے جن کے بارے میں وہ یہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔ چنانچہ یہ اسی بدحواسی اورخودپرستی کا نتیجہ ہے کہ مغربی پالیسیاں کسی مستقل اورباقاعدہ نوعیت سے محروم اورناکام ہیں۔
٭ پانچواں سبب ترقی پسند حلقوں کے ذہن میں موجود وہ کنفیوژن ہے جس کاتعلق اسلام کی ترقی، فروغ اورپیش رفت کے حوالے سے ہے۔ کمیونزم، سوشلزم اور سوویت روس کے زوال کے بعدیہ ترقی پسند افراداپنی بنیادی اوراصل شناخت سے محروم ہوچکے ہیں لیکن رسی جل جانے کے بعدان کے بل نہیں گئے۔ چنانچہ وہ آج بھی نوآبادیاتی نظام کے مخالفانہ موقف پر ہی انحصار کرنے پرمجبور ہیں۔ تاہم اس کے باوجوداسلامی احیااورنشاة الثانیہ کی اندرونی قوت اورداخلی طاقت کوبھی نہ سمجھنا ایک زبردست غلطی ہوگی۔یہ طاقت اورقوت نوآبادیاتی نظام کا شکاررہنے کے نتیجے میں نہیں پیداہوئی بلکہ اس کا تمام ترانحصاراپنے عقیدے کی بڑھتی ہوئی قوت اوراپنے عقائدکے نظام کی حقانیت پرہے۔ مزیدبرآں یہ بات بھی اسلام کے حق میں جاتی ہے کہ آج کے بیشتر ترقی پسندوں کے پاس بھی روایتی طورپر اسلام کے رجعت پسندانہ اورفرسودہ تصورات کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے نہ ہی وہ اپنے مخالفین کے سلسلے میں اسلام کے مظالم کا ذکر کرتے ہیں نہ ہی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کاکوئی تذکرہ ان کی زبانوں پر آتا ہے۔
٭ اسلام کی روزافزوں بڑھتی ہوئی قوت اورطاقت کاایک اہم سبب ان غیرمسلموں کاپراسراررویہ اوراظہارِاطمینان ہے جن کاتعلق امریکاکی پسپائی سے بتایاجاتا ہے چنانچہ ایسے غیرمسلم جواس قسم کے اطمینان کااظہارکررہے ہیں درحقیقت ٹروجن گھوڑے ہیں جن کی تعدادروزبروزبڑھتی جارہی ہے۔ان میں بعض اس اصول پرعمل پیراہیں کہ دشمن کادشمن دوست ہوتاہے جبکہ دیگرکاخیال یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف مغرب کی اس جنگ میں کسی بھی صورت میں مغرب کی حمایت نہیں کریں گے،وہ سمجھتے ہیں کہ ان کافیصلہ بالکل درست اورصحیح ہے۔ تاہم ان تمام حقائق کے باوجودنتائج ان سب کے لیے یکساں ہی ہیں۔ اسلام کی پیشرفت کے نتائج کویہ دونوں طبقات یکساں طورپربھگتنے کے لیے مجبور ہیں۔
٭ ساتواں سبب مغرب کی اخلاقی غربت اوراخلاقی اقدارکے مجموعی نظام کے افلاس میں مضمرہے بالخصوص امریکا کااخلاقی نظامِ اقدارزوال اورتباہی کی حدوں کوچھورہاہے چنانچہ آزاد منڈی کی معیشت، آزادانہ انتخاب، تجارتی مقابلہ اورکاروباری مسابقت کووہاں آزادی اورلبرٹی کانیانام دیاگیا ہے۔ ان چیزوں کا اسلام اوراس شریعت سے قطعاًکوئی مقابلہ نہیں کیاجاسکتا خواہ آپ اسے پسند کریں یانہ کریں۔ اسلام کے اخلاقی نظامِ اقدارمیں ایسی چیزوں کی کوئی گنجائش موجودنہیں ہے۔ تعجب کی بات تویہ ہے کہ دلوں اوردماغوں کے نام پرجوجنگ لڑی جارہی ہے اسی کے دوران امریکاکی پہلی کیولری ڈویژن نے آدم اسمتھ آپریشن کاآغازکرتے ہوئے عراق جیسے جنگ زدہ ملک کوتجارتی اورکاروباری مارکیٹنگ کے اسرارورموزسکھانا شروع کردیے مگران حالات اورحقائق کی روشنی میں کم ازکم امریکاکوتووہاں کامیابی اورفتح حاصل نہیں ہوسکی۔ یہاں مجھے شیخ محمد الطباطبائی کے وہ الفاظ یادآرہے ہیں جوانہوں نے مئی 2003ء میں بغدادکی ایک مسجد کے نمازیوں سے خطاب کے دوران کہے تھے: ’’مغرب ہمیشہ آزادی اورخودمختاری کی دہائی دیتا رہتا ہے۔ اسلام ایسی کسی آزادی کوتسلیم نہیں کرتا۔ اصل آزادی اللہ تعالی کی عبادت اوراطاعت ہی میں مضمرہے‘‘۔
٭آٹھواں سبب اسلام کے ناقابل شکست ہونے کایہ ہے کہ اس کی موجودہ پیش رفت ترقی اورآگے ہی آگے بڑھتے رہنے کی رفتاراسی طرح بدستور جاری رہے گی کیونکہ اس غرض اورمقصد سے دستیاب ذرائع ابلاغ کوبڑی خوبی اور مہارت کے ساتھ استعمال کیاجارہا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی ویب سائٹس کے ذریعے الیکٹرانک جہادکے فروغ کے علاوہ مغربی نظریات کے پرچار کی مسلمان علمااوراسکالرزکی جانب سے شدیدمخالفت بھی جاری ہے۔آپ اسے در پردہ ایک سیاسی شراکتی معاہدہ بھی کہہ سکتے ہیں جومسلمانوں اورغیرمسلموں کے مابین اسلام کے عالمی نقطہ نظرکی پہنچ کووسیع ترکرنے کی غرض سے عمل میں آچکا ہے۔
٭ نواں سبب جواسلام کی مزید پیش رفت کاضامن ہے وہ ہے مسلم ممالک اور عربوں کے مادی اورمعدنی ذرائع اوروسائل پرامریکا کا کلی انحصار!یاد رہے کہ اپریل 1917ء میں سابق امریکی صدر روڈوولسن نے امریکی کانگریس کویہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردے جس کے بارے میں وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ جنگ چھیڑنے میں ہمارا کوئی ذاتی مفاداورمقصد پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت تواس نوعیت کااعلان جنگ ممکن بھی تھا لیکن آج کی تبدیل شدہ صورتحال اس بات کی ہرگزاجازت نہیں دے گی کیونکہ امریکاکی صارفانہ احتیاج اور مختلف شعبوں میں کیے جانے والے معاشی اوراقتصادی نوعیت کے اقدامات اورضروریات لامتناہی حد تک بڑھ چکی ہیں جن کے لیے اسے مسلم اور عرب ممالک کے ذرائع اوروسائل پرکلی انحصارکرنا پڑتاہے چنانچہ آج کے امریکاکامکمل انحصارمشرقِ وسطیٰ میں موجودتیل کے کنوؤں سے برآمدہونے والے تیل کے ایک ایک بیرل تک ہی محدودہوکررہ گیا ہے اورمستقبل میں بھی یہ صورتحال جوں کی توں رہے گی چنانچہ وہ اس حیثیت میں ایسا کوئی خطرہ مول لینے پر تیارنہیں ہوگا۔
٭ آخرمیں مغرب کواس بات کاپورایقین ہوچلا ہے کہ ٹیکنالوجی پرمبنی مغربی معاشرے کاجدید ترین لائف اسٹائل اورمنڈی کی معیشت پرمبنی اس کی اقتصادی ترقی اورپیش رفت بالآخرپسماندہ اورقدامت پرست اسلام کے تصورات کی بہ نسبت زیادہ ترقی یافتہ اعلیٰ اوربرترہے، یہ بھی مغرب کی ایک پرانی غلط فہمی یاخوش فہمی ہے۔ 1899ء میں سابق برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے اس خیال کااظہارکیاتھاکہ پوری دنیا میں اسلام سے زیادہ رجعت پسندی کسی بھی مذہبی نظریے میں موجود نہیں ہے۔ بہرطورایک صدی کاعرصہ گزرنے کے بعد آج امریکااورمغرب کواس بات پرپختہ یقین ہے کہ جدید ترین ہارڈ ویئراسلحہ اور اسٹاروارکے دفاعی حربے ان کواس جنگ میں فتح سے ہمکنار کردیں گے لیکن یہ اس صدی کی سب سے بڑی خوش فہمی یاغلط فہمی ہوگی۔
جون 2004ء میں سعودی عرب کے مشہور اسکالر سلیمان العمر نے یہ اعلان کیا تھاکہ اسلام ایک خاص منصوبے کے تحت رفتہ رفتہ پیش رفت کررہاہے جو ایک دن مغرب اورامریکاکی مکمل شکست وریخت اورتباہی وبربادی کاباعث بن جائے گا۔ آج جوحقائق اورصورتحال ہمیں نظر آرہی ہے اوراسلام کو شکست نہ ہونے کے جو 10 اسباب بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں سعودی اسکالر سلیمان العمر کادعویٰ بالکل صحیح اوردرست معلوم ہوتاہے۔ اس کے لیے اب انتہائی ضروری ہو گیاہے کہ عالم اسلام کے ساتھ فوری بہترتعلقات بنانے میں امریکااورمغرب کوپہل کرنے میں تاخیرنہیں کرنی چاہیے اوران پرہونے والے مظالم کا خاتمہ کرنے کے لیے ان کے دیرینہ مسائل(فلسطین اورکشمیر) کےمنصفانہ حل میں مزیدتاخیرنہ روا رکھی جائے۔