شام میں امریکا نواز کُرد ریاست کی جانب پہلا قدم

330

منیب حسین
شام میں جاری خانہ جنگی تیزی سے اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔ مطلق العنان موروثی صدر بشارالاسد کے خلاف مارچ 2011ء میں شروع ہونے والی پُرامن انقلابی تحریک فوج کے مظالم کے باعث جب مسلح جدوجہد کا روپ دھار گئی، تو ’جتنے منہ اتنی باتیں‘ کے مصداق درجنوں تبصرے زبان زد عام ہوتے گئے، تاہم موجودہ صورت حال اُن تمام تبصروں کی نفی کرتی ہے۔
اِبتدا میں بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بشارالاسد اپنے خلاف اُٹھنے والی عوامی انقلابی تحریک کے آگے نہیں ٹِک پائے گا۔ ہم بھی یہی سوچتے تھے اور شاید اُن حالات میں ہماری یہ سوچ درست تھی۔ جولائی 2011ء میں فوج کے غیر عَلَوی عناصر نے بشارالاسد سے بغاوت کرتے ہوئے موجودہ نظام کے خاتمے کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی، تو دنیا نے اِسے مغربی سازش قرار دیا۔ حالاں کہ مسلح تحریک کے لیے مغرب کی فوجی امداد 2013ء میں ملنا شروع ہوئی۔ وہ بھی اُس وقت جب مغرب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ شمال، مشرق اور جنوب میں کئی فوجی چھاؤنیاں اور ہوائی اڈے مزاحمت کاروں کے ہاتھ آچکے ہیں۔ اسی طرح اسلام پسندوں کے ظہور نے اِس تحریک کو آخری زمانے کی جنگوں سے جوڑنے کی راہ ہموار کی۔ دینی سوچ رکھنے والے ایک بڑے طبقے نے گمان کیا کہ شاید امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے اور یہ سب ملحمہ کبریٰ کا پیش خیمہ ہے۔
بہ ہر حال لوگوں کے یہ خیالات تھے اور شاید اب بھی ہیں، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی منصۂ شہود پر نہ آسکا۔ البتہ کئی ہزار سال پر مشتمل تہذیب کا گہوارہ ملک شام تباہ و برباد ہوگیا۔ حلب، حِمص، حَما، دُوما، دَرعا اور رَقَّہ جیسے تاریخی شہر کھنڈر بن گئے۔ صدیوں سے اِس سرزمین پر آباد خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی میں سے نصف یعنی سوا کروڑ بے گھر ہوئی، جن میں سے 55 لاکھ بیرون ملک ہجرت کرگئے۔ بشارالاسد انتظامیہ دنیا کی سب سے کمزور حکومت بن گئی، جس نے اپنی آزادی اور خودمختاری روس، ایران اور حزب اللہ کے ہاتھوں گروی رکھ دی۔ داعش اور القاعدہ کے عناصر نے خود کو اسلام کا عَلَم بردار گمان کرتے ہوئے، بشارالاسد مخالف پوری تحریک مزاحمت کا بھرکس نکال دیا۔
اِن حالات کو دیکھتے ہوئے عالمی طاقتوں نے 2 برس قبل اِس بحران کا حل ’جغرافیائی تقسیم‘ کی صورت میں نکالا۔ یہی وجہ ہے کہ آج روس، امریکا اور اسرائیل اِس معاملے میں ایک ہی میز پر دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے تو شام کی مجوزہ تقسیم کُرد، سنی، شیعہ علوی اور دروز 4 الگ الگ ریاستوں پر مشتمل ہے، جن کے درمیان جغرافیائی سرحدوں سے قبل ہی مذہب، عقیدے اور نسل کی لکیریں کھینچ دی گئی ہیں، تاکہ مستقل میں یہ چاروں ریاست باہم لڑتی رہیں، اور اِن کی حلیف عالمی طاقتیں اِنہیں اسلحہ بیچ کر اِن کے وسائل ہڑپ اور اپنے دیگر مفادات حاصل کرتی رہیں، تاہم اِن میں سب سے پہلے کرد ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، جس کی سرپرستی امریکا کر رہا ہے۔
شام کے شمال اور شمال مشرق میں اِس کُرد ریاست کے قیام کی تحریک یوں تو برسوں پرانی ہے، تاہم امریکا کے زیرِقیادت بین الاقوامی عسکری اتحاد نے اس میں جو نئی روح پھونکی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید شامی کُرد اپنے اِس خواب کو شرمندہ تعبیر کرلیں گے۔ ترکی کے بھرپور احتجاج اور عراق اور ایران کی مخالفت کے باوجود امریکی حکومت شمالی شام میں کُردوں کو اتنا مضبوط کرچکی ہے کہ اب اُنہوں نے مسلح جدوجہد سے ایک قدم آگے بڑھ کر اِقدام کا فیصلہ کیا ہے۔
عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ نے ہفتے کے روز اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ خودمختار کُرد حکومت کی تحریک کی ما تحت ’شمالی شام کے وفاق کی تاسیسی کونسل‘ نے صوبہ حسکہ کے قصبے رمیلان میں منعقد ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں ’عوامی تحفظ یونٹس‘ (وائی پی جی) کے زیرِقبضہ علاقوں کی انتظامی تقسیم اور اُن میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تاسیسی کونسل نے علاقائی کمیٹیوں کے انتخابات رواں برس 22 ستمبر کو اور بلدیاتی کونسلز کے انتخابات 3 نومبر کو کرانے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی تاسیسی کونسل نے آیندہ برس 19 جنوری کو تمام علاقوں میں عام انتخابات کرانے کا بھی اعلان کیا ہے، جسے ’شمالی شام میں جمہوری اقوام کی کانفرنس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا نواز کُرد ملیشیاؤں نے گزشتہ برس رمیلان ہی میں ہونے والے ایک اجتماع کے دوران شمالی شام میں اپنی وفاقی حکومت کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔ اگرچہ شامی حزب اختلاف، بشارالاسد حکومت اور ترکی اس قسسم کے کسی بھی منصوبے کی ہر سطح پر کھل کر مخالفت کرتے ہیں، تاہم شامی کُرد مکمل اعتماد اور اطمینان کے ساتھ اپنی خودمختاری کے اِس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیوں کہ انہیں امریکا اور اُس کے توسط سے مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
شامی کُرد جس ’شمالی وفاق‘ کی بات کرتے ہیں، وہ اِبتدائی طور پر صوبہ حلب کے شمال میں سرحدی علاقے کوبانی یعنی عین العرب، حلب کے مغربی حصے عفرین اور صوبہ حسکہ کے علاقے جزیرہ پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی اِس میں حلب اور حسکہ کے وہ چھوٹے علاقے بھی شامل ہیں، جو وائی پی جی کے قبضے میں ہیں۔ واضح رہے کہ 2011ء میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد سے شام کے شمال مشرقی علاقوں پر کُرد ملیشیاؤں کا قبضہ ہے۔ 2015ء تک یہ کُرد ملیشیائیں دمشق حکومت سے علاحدگی کی بات نہیں کرتی تھیں، اِس لیے بشارالاسد انتظامیہ شمال مشرق میں اُن کے قبضے سے مطمئن تھی، لیکن اب بشارالاسد انتظامیہ کو بھی کُردوں کے اِن اقدامات سے شدید تشویش لاحق ہوگئی ہے، تاہم اُمید یہی ہے کہ روس امریکا گٹھ جوڑ بشارالاسد کو مجبور کردے گا کہ وہ اِس پیش رفت کو قبول کرلے۔
البتہ دوسری جانب ترکی کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس کُرد منصوبے کو کبھی مکمل نہ ہونے دے، کیوں کہ تُرک حکومت اِس منصوبے کی روح و رواں شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کو تُرک کرد ملیشیا کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ کی ہی شاخ تصور کرتی ہے اور اُسے خدشہ ہے کہ اگر آج شام میں یہ منصوبہ کامیاب ہوگیا، تو کل ترکی کے جنوب میں بھی کرد علاحدگی پسند تحریک ایک بار پھر زور پکڑ جائے گی۔ اِسی قسم کے خدشات ایران کو بھی ہیں، تاہم شام سے سرحد نہ لگنے کے باعث تہران حکومت قدرے کم فکر مند ہے۔
یہ کھیل ترکی اور ایران کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے، تاہم امریکا اِس صورت حال کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ’خودمختار کُرد ریاست‘ کے قیام کی بھاری قیمت پیشگی ہی وصول کر رہا ہے۔ وہ اِس طرح کہ دنیا کو دکھانے کے لیے شام کے مشرقی صوبے رقہ میں شدت پسند تنظیم داعش کے خاتمے کے نام پر شروع کی گئی فوجی کارروائی میں وائی پی جی کے زیرقیادت ’شامی جمہوری فوج‘ امریکا کے لیے زمینی دستوں اور انسانی ایندھن کا کام دے رہی ہے، کیوں کہ امریکی حکومت افغانستان اور عراق میں بھاری جانی نقصان اُٹھانے کے بعد اب کسی ملک میں زمینی دستے بھیجنے کو تیار نہیں۔ ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ کے اہم تزویراتی علاقے یعنی شمالی شمال میں امریکی حکومت کو 2 ائربیسز سمیت کم از کم 10 فوجی اڈے میسر آچکے ہیں، جو یقینا شام کی تقسیم کے بعد بھی موجود رہیں گے۔