تبدیلی کے لیے مزدور بھی سیاست میں حصہ لیں

183

عبدالحئی
سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں۔ قبائلی سرداروں پر تو لازم ہے بلکہ سیاست میں رہنا اور مستقل رہنا ان کی ضرورت ہے، ان کا خاصہ ہے، ان کا کاروبار، زندگی ہے، آسائشیں سب کچھ ان کی ہی ضرورت ہے۔ حکمرانی ایک ضرورت ہوتی ہے یہ شوق نہیں ہے۔ ان کی تمام تر جائداد، زمین، فیکٹریاں اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس کی حفاظت کے لیے حکمران ہونا لازم ہے تا کہ وہ اپنے استحصال کو جاری رکھیں، مزید دولت کے انبار لگائیں۔
نیشنل اکائونٹی بلیٹی نے ایک فہرست شائع کی تھی جس میں بہت سے سرمایہ داروں کی کرپشن کی مالی رقوم شائع کی تھی۔ اس فہرست میں کہیں ذکر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ پاناما کیس کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کا ذکر تو تمام ٹی وی چینل پر سارا دن آتا ہے لیکن یہ جو چار ہزار سے زائد لوگوں کی کرپشن کی فہرست ہے اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ اب یہ فہرست مزید ترقی کرچکی ہے۔
اگر کوئی محنت کش بھوک سے بے حال کسی بیکری سے ڈبل روٹی بغیر اجازت اُٹھالے اور کھالے، تو پہلے لوگ (عوام) مارے گی کہ اس نے چوری کی ہے پھر اس کو پولیس اُٹھا کر لے جائے گی۔ ایف آئی آر درج کردے گی، اس کو جیل بھیج دے گی، جیل میں اس کی پیشی کا نمبر ہی نہیں آئے گا، جب آئے گا تو اس کے پاس کوئی وکیل نہیں ہوگا، چند مرتبہ عدالت میں پیش ہونے کے بعد اس کو سزا ہوجائے گی۔
ایک مرتبہ ہم نے لانڈھی جیل کا دورہ کیا تو پتا چلا کہ 300 سے زائد افراد ایسے ہیں جو سزا کاٹ چکے ہیں ان پر چوری کا الزام تھا۔ جرمانہ ادا نہیں کرسکتے، جرمانہ بھی چند سیکڑوں (ہزار سے کم) روپے تھے، پھر ایک سماجی تنظیم نے ان سب کا جرمانہ ادا کیا تا کہ ان کو رہائی مل سکے۔ ایک بچے سے ہماری ملاقات ہوئی اس پر چوری کا الزام تھا، یہ کچرا چننے والا بچہ تھا، اس نے کہیں سے کنستر (ٹین کا ڈبہ) اُٹھا لیا تھا، اس کو پولیس نے گرفتار کرلیا، یہ بہت پرانا واقعہ ہے اورنگی ٹائون کا۔ اس کی ماں نے تھانے کے بہت چکر لگائے لیکن وہ تھانے کی کچھ ضرورت پوری نہیں کرسکی اس لیے ایف آئی آر بھی درج ہوئی اور سزا بھی۔
اب آپ سرمایہ داروں، جاگیرداروں کا حال سنیے۔ ان پر جو الزامات تھے اس کے تحت انہوں نے جرمانے ادا کردیے، وہ کبھی گرفتار بھی نہیں ہوئے۔ جنرل مشرف کی حکمرانی کے دوران KESC کا مالی بحران جس میں عوام اور خواص کی جانب سے بڑے بڑے بجلی کے بل کی ادائیگی کا معاملہ تھا۔ اس مسئلے کو فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔ بل کی وصولی پر 12 فی صد کمیشن طے تھا۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کو پکڑا گیا، بل وصول کیے گئے لیکن سزا کسی کو نہیں ہوئی اور بل بھی ادا ہوگیا اور کمیشن بھی دے دیا گیا۔ کے الیکٹرک کے آفیسر کا کہنا تھا کہ جو لوگ بجلی استحصال کرتے ہیں ہمارے گاہک ہیں، ان سے رقم وصول کرنے میں ان کو بجلی بیچتے ہیں یہ ہمارے گاہک ہیں ہم ان کی عزت کرتے ہیں، ہمارا کام بجلی فروخت کرنا اور رقم وصول کرنا ہے۔
حکمرانی کرنا شوق یا پسندیدہ مشغلہ نہیں ہے بلکہ ضرورت ہے۔ آج کے دن ابھی اپنی اسمبلی خواہ صوبائی ہو یا وفاقی اور اس کے ساتھ سینیٹ پر نظر ڈالیں۔ ان کے ممبران پر نظر ڈالیں، پھر ان کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں آپ کو 100 فی صد اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کون لوگ ہیں ان کی کتنی جاگیر ہے، زرعی زمین کتنی ہے اور شہر میں کہاں کہاں ان کے قیمتی اثاثے ہیں۔
مجھے یاد ہے بھٹو صاحب کی پہلی (آخری) حکومت میں معراج محمد خان ایک نام نہاد منسٹری کے وزیر بن گئے۔ میں تو ایک ورکر تھا۔ وہ بھی بے روزگار ورکر، میرے ایک دوست نے معراج صاحب سے میری ملازمت کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ باقاعدہ تمام منسٹریز سے متعلق روزگار کے معاملے میں ہدایت ہے، معراج محمد خان کی سفارش پر کسی کو ملازم نہ رکھا جائے۔ ایک ورکر کی یہ حیثیت ہوتی ہے۔ معراج محمد خان بہت بڑا نام تھا۔ پی پی پی کی ضرورت تھی، حیثیت نہیں تھی۔ ایک خاتون جو سیاسی جماعت کی بہت اہم رکن ہیں اسمبلی کی ممبر بھی ہیں اور حکمران بھی ہیں۔ انہوں نے میرے بیٹے سے کہا کہ آج کل ہم حکومت میں آنے والے ہیں، ہم اپنے ابو سے کہہ کر کم از کم ایک کو تو ملازم کرادیں۔ اب میرے صاحبزادے مجھے روز کہتے کہ ملازمت دلائو، آنٹی نے وعدہ کیا ہے میں نے انہیں بتایا کہ ملازمت آپ کے لیے نہیں ہے انہوں نے اخلاقی طور پر آپ کو آفر دی تھی۔ ہم نے بھی سیاسی جماعت میں کافی وقت گزارا ہے بہرحال بہت ضد کرنے پر ان کو بھیج دیا۔ سارا دن گھر کے باہر بیٹھے رہے، میں نے فون کیا کہ صاحبزادے آپ سے ملنے کے لیے آپ کے گھر کے باہر موجود ہیں۔ ان کی یہ خواہش ملاقات ہوگئی پوری ہوگئی لیکن روزگار نہیں ملا۔ بیٹے کو میں نے بتایا کہ جس ملک میں روزگار برائے فروخت ہو، وہاں ہم غریب لوگوں کو روزگار نہیں مل سکتا۔
ہم اسی لیے بار بار کہتے ہیں کہ محنت کش اور عام آدمی کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے اور سیاسی جماعت کو جمہوری انداز میں چلانا چاہیے۔ لیکن عملاً کیا ہوتا ہے؟ کوئی بھی سیاسی جماعت (سوائے ایک دو کہ) جمہوری اصولوں پر عمل نہیں کرتیں۔ سیاسی جماعتوں میں مورثیت قائم ہے، ولی خان مرحوم ہوئے تو ان کے بیٹے پارٹی کے صدر بن گئے، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب عوامی نیشنل پارٹی میں صدارت کا مسئلہ آیا تو سب سینئر رکن اور اہل محمود الحق عثمانی صاحب تھے۔ ان کو یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ وہ اس سرزمین کے سپوت نہیں ہیں۔ اس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں میں (سوائے چند کے) مورثیت کی بیماری پھیل گئی۔
پہلا مسئلہ محنت کشوں کے لیے سمجھنے کا یہ ہے کہ اس طرح کی سیاسی جماعتیں ان کے لیے نہیں ہیں کیوں کہ یہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتیں۔ یہ سب کچھ ان کے سامنے ہے۔ یہ اپنی لوٹ کھسوٹ کی جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں۔ اچھا تو پھر مزدور یا محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے لوگوں کو سیاست کرنا چاہیے یا نہیں۔
دراصل مسائل ہی محنت کشوں اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لوگوں کے ہوتے ہیں اور ان کو سیاست میں ضرور اور لازمی حصہ لینا چاہیے، اپنی سیاسی جماعت بنانی چاہیے یا پہلے سے موجود کسی بھی درمیانی طبقے کی سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیے۔ شرط یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعت جمہوری ہو اور محنت کشوں کے نظریات کی ترجمانی ہو۔ اس کو لازمی نچلی سطح سے جمہوری جدوجہد میں شریک ہونا یعنی بلدیاتی نظام سے/ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینا اور اس کے بعد اس کو آگے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ کیوں کہ جب تک یہ صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ تک نہیں پہنچے گے محنت کشوں کی کوئی آواز نہیں ہوگی۔ قوانین موجود ہیں ان پر عملدر آمد نہیں ہوگا۔ مزید قانون سازی میں شرکت کے بغیر صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی۔
محنت کش طبقہ ہی وہ طاقت ہے جو ملک سے جاگیرداری، وڈیرہ شاہی سے نجات دلا سکتا ہے۔ محنت کش طبقہ ہی وہ طاقت ہے جو زمین پر کام کرنے والے یعنی زراعت سے منسلک محنت کشوں کو منظم کرسکتا ہے اور ان کی آواز بن سکتا ہے۔ لوگوں کو غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔
موجودہ حکومت میں پاناما کیس کے مسئلے پر ملک کے وزیراعظم نواز شریف پر بدترین الزامات ہیں۔ گو کہ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں محترم بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ یہ ایک سیاسی کھیل تھا اور بڑی طاقتوں کی نافرمانی کی سزا تھی۔ اتحادی ممالک کی مرضی کے بغیر کہیں نہیں جاسکتے۔ اسی طرح کی صورت حال آپ کے سامنے پھر ہے جس میں چین کی طرف جھکائو کافی تھا۔ مسئلہ اس کو بڑا راستہ دینے کا ہے، لیکن کرپشن بھی شامل ہے یہ کرپشن تو پورے ملک میں ہے۔ صرف اور صرف کراچی کو ہی لے لیں تقریباً 2 ملین ٹھیلے بازاروں میں موجود ہیں، راستہ چلنے کی فٹ پاتھ پر ہوٹل، فیکسڈ، مستقل سڑکوں پر بازار (پنکچر بنانے والے) گنے کا رس نکالنے والی مشینیں، مشروب بیچنے والے، پان کی دکانیں اور بہت سے کاروبار ہم روز دیکھتے ہیں، راستہ چلنے کے لیے نہیں ملتا۔ سڑکوں پر قبضے کی وجہ سے ٹریفک کا نظام جام ہے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہنچنے کے لیے کئی کئی گھنٹے صرف کرنے پڑتے ہیں۔ یہ سب تماشا بغیر کسی وجہ کے نہیں ہے، بجلی کے کنڈے، چرس اور ہیروئن کے اڈے، عوام کو پانی نہیں ملتا، لیکن پیسے دے کر جتنا چاہے پانی خرید سکتا ہے۔ اربوں روپے کی یومیہ ناجائز آمدنی اور اس آمدنی حاصل کرنے والوں کے پاس جائداد، زمین یہ سب کچھ ہیں جو آج کے انتہائی سائنسی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ یہی بات ہے کہ بیورو کریسی کے ادارے بہت مضبوط ہیں یہ مافیا بہت مضبوط ہے۔ لیکن اس کے باوجود میاں نواز شریف کو استعفا دے دینا چاہیے۔ کیوں کہ یہ اعلیٰ عدالتی معاملہ ہے اور عدالتوں کو آزادانہ کام کرنے کی ایک عادت پیدا کرنا چاہیے۔ یہ پریکٹس ہونی چاہیے کہ کہیں غلطی ہوگئی ہے تو اس کو قبول کرکے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ ایک اور مثال سامنے ہے محمد یامین مرحوم سیکورٹی پرنٹنگ پریس کے مزدور یونین کے عہدیدار تھے یونین کی سرگرمیوں میں برطرف ہوئے، مقدمہ چلا، جونیئر لیبر کورٹ، سینئر لیبر کورٹ، لیبر ٹریبونل، پھر ہائی کورٹ، پھر سپریم کورٹ وہاں سے فیصلہ یہ ملا کہ واپس جونیئر لیبر کورٹ سے پھر مقدمہ چلے گا۔ یہ مقدمہ چلتا رہا اور محمد یامین 25 سال مقدمہ لڑنے کے بعد بھی بحال نہ ہوسکے ہم نے سلور جوبلی منائی۔
پھر عدالت میں ہی مُک مکا کرکے جان چھڑائی، تازہ کیس سکندر بھٹو کا ہے، سپریم کورٹ سے واپس نچلی عدالت میں۔ یہی صورت حال ایک لڑکی فائزہ سرکی کی ہے جس کو 8 سال قبل اغوا کیا گیا اس کی عمر 6 سال تھی۔ سرکی نے تاوان بھی ادا کیا۔ بیٹی پھر بھی نہیں ملی، گھر کی ہر چیز بک گئی مقدمہ چلا نیچے سے اوپر تک پھر کیا ہوا پھر واپس نچلی عدالت میں۔
مقدمے کی پیروی ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ کے جج کررہے ہیں، سرکی بیچارہ مختلف پریس کلب پر مظاہرہ کرتا ہے، کبھی بھوک ہڑتال کرتا ہے، 9 سال ہوگئے۔ نتیجہ نامعلوم۔ مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا، نتیجہ نامعلوم۔ نواز شریف نتیجہ نامعلوم، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، نتیجہ نامعلوم، بے نظیر نتیجہ نامعلوم، محنت کش اب غیر نظریاتی ہیں بہت سے خانوں میں تقسیم در تقسیم ہیں۔ محنت کشوں کا الگ سے کوئی احوال نہیں ہوتا۔ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے ان تمام جائز اور ناجائز معاملات میں وہ زندہ ہے۔ ملکی معیشت کے زیر اثر ہوتا ہے، معیشت ہی نہ ہو تو ثقافت کہاں ہوگی؟ اخلاقیات کہاں ہوں گے؟ ہر قدم پر دہشت گردی ہے، کرپشن ہے، یہ سب محنت کش کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ کرایا جاتا ہے اس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی ۔وہ بے روزگاری کو معمولی قیمت پر فروخت کرتا رہے گا اس سے جو چاہے کام لے لیں ہر کام کے لیے زرخیز ہے۔
(یہ مضمون پچھلے ہفتے شائع ہونا تھا جو اب شائع کیا جارہا ہے)