مزدوروں کی خبریں بغیر کسی مالی فائدے کے شائع ہوتی ہیں‘ قاضی سراج

329

لائرنٹ گائر
SCIENCES PO کالج برائے بین الاقوامی تحقیق فرانس کے پروفیسر جناب Laurent Gayer نے روزنامہ جسارت کے انچارج صفحہ محنت قاضی سراج سے 22 جولائی 2017ء کو دفتر روزنامہ جسارت میں انٹرویو لیا۔ جو افادہ عام کے لیے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
سوال: روزنامہ جسارت صفحہ محنت کیوں شائع کرتا ہے۔
جواب: اس لیے کہ محنت کشوں کی سرگرمیوں کو اُجاگر کیا جاسکے، جسارت برصغیر کا واحد اخبار ہے جو مزدوروں کے لیے صفحہ محنت جنوری 1991ء سے شائع کررہا ہے۔
س: جسارت کو صفحہ محنت سے کیا فائدہ ہے۔
جواب: صفحہ محنت شائع کرنے سے جسارت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اتنا ضرور ہے کہ مزدور برادری جسارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
سوال: دوسرے اخبار مزدوروں کی خبریں شائع کیوں نہیں کرتے۔
جواب: ہر اخبار کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اب ایسے اخبارات ہیں جو اشتہارات کی وجہ سے اپنا مقام رکھتے ہیں۔ کسی وڈیرے یا سرمایہ دار کا جانور مرجاتا ہے تو اس کی خبر تو دو مرتبہ شائع ہوتی ہے لیکن کسی کارخانہ میں مزدور کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو اس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
سوال: روزنامہ جسارت ایک سیاسی پارٹی کا اخبار ہے تو مخالف پارٹی والے مزدوروں کی خبریں کیوں شائع کی جاتی ہیں۔
جواب: یہ بات درست ہے کہ جسارت ایک پارٹی کا اخبار ہے لیکن مزدور کسی بھی پارٹی کا ہو یا آزاد ہو۔ مزدور کا مسئلہ تو ہے۔ اس لیے بلا امتیاز خبریں شائع ہوتی ہیں۔
صفحہ محنت کی پالیسی اول روز سے آزاد (open) رہی۔ پالیسی open ہونے کے علاوہ لبرل اور بائیں بازو کے ٹریڈ یونین رہنمائوں کو شائع کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے صفحہ محنت ہر طبقہ فکر میں مقبول ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے مجھے لوگ کامریڈ کہتے ہیں۔
دیکھئے مزدور کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو یا کسی بھی مذہب سے وہ مزدور تو ہے۔ اس لیے مزدوروں کے مسائل شائع کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ مزدور کسی بھی معاشرے میں ایک اہم طاقت ور عنصر ہے۔ اگر کسی بھی ملک میں مزدور اور کسان متحد ہو کر کوئی تحریک چلائیں تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مزدوروں اور کسانوں نے متحد ہو کر انقلاب برپا کیا ہے۔ پاکستان میں ایک طاقتور حکمران ایوب خان کا تختہ مزدوروں اور کسانوں نے متحد ہو کر اُلٹا تھا۔
سوال: خبریں کس طرح حاصل کرتے ہیں۔
جواب: خبریں حاصل کرنے کے ذرائع اب تیز ہوگئے ہیں۔ لیکن پھر بھی اہم خبروں کے لیے مختلف یونینوں سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ کراچی میں تقریباً 150 یونینز ہیں جس میں 80 یونینز فعال ہیں۔ ان یونینوں سے رابطہ کے لیے ان کے پاس جانا ہوتا ہے اور کبھی وہ خود بھی خبریں فراہم کردیتی ہیں۔
سوال: خبروں کی اشاعت میں کبھی خوف کا سامنا ہوا۔
جواب: جی خوف تو ہوتا ہے کیوں کہ مزدور دشمن طاقتیں بڑی مضبوط ہوتی ہیں خاص طور پر جب ہم ایجنسیوں کے خلاف لکھتے ہیں۔ اس حوالے سے میں 15 مارچ 2001ء کو گرفتار ہو کر 9 گھنٹے آرٹلری تھانے میں بند رہا جس میں ملک رفیق ایڈوکیٹ کے علاوہ 12 مزدور بھی شامل تھے۔
سوال: محنت کشوں کو عدالتوں سے انصاف کس طرح ملتا ہے۔
جواب: محنت کشوں کو عدالتوں سے بڑی مشکل اور دیر سے انصاف ملتا ہے۔ انصاف کے حصول میں آخری مرحلہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہوتا ہے، اس پورے عرصے میں 10 سال سے 20 سال لگ جاتے ہیں۔ اس طویل مدت میں مزدور کا انتقال ہو جاتا ہے یا اس کی مدت ملازمت پوری ہوجاتی ہے۔ جسارت نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے متعدد تاریخ ساز فیصلے شائع کیے ہیں جو مزدوروں کے حق میں ہیں لیکن صنعت کار مذکورہ فیصلوں پر عمل نہیں کرتے۔ جہاں تک انصاف کا تعلق ہے تو ابتدائی طور پر مزدور مسائل حل کروانے کے لیے محکمہ محنت ذمے دار ہے۔ محکمہ محنت لیبر قوانین پر عمل کروانے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتا۔
سوال: کیا آپ کارخانوں کا نام لے کر خبریں شائع کرتے ہیں مثلاً الکرم ٹیکسٹائل وغیرہ جب کہ دوسرے اخبار صرف یہ لکھتے ہیں کہ ایک کارخانے میں فلاں واقع ہوا۔
جواب: جی ہاں جسارت کارخانوں کا نام لکھ کر خبریں شائع کرتا ہے کہ فلاں کارخانے کے مزدوروں کے مسائل کیا ہیں۔ اب جب کہ آپ نے دوسرے اخبارات کا ذکر کیا ہے تو آپ کو بتائوں کہ صنعت کار نہیں چاہتے کہ ان کے کارخانوں کے خلاف نام لے کر کوئی خبر شائع ہو کہ ان کے یہاں مسائل ہیں۔ صنعت کاروں کی اپنی تنظیمیں ہیں۔ جب صنعت کار کسی پروگرام میں ملتے ہیں تو مزدوروں کے لیے صرف زبانی ہمدردی کی باتیں کرتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ کارخانوں پر نام نہیں لکھے ہوئے، مزدوروں کو تقررنامہ نہیں دیا جاتا۔ مزدوروں کو EOBI اور سیسی میں رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا۔ کم از کم اجرت پر عمل نہیں ہوتا۔ مزدوروں کو کسی قسم کی قانونی مراعات اور سہولتیں حاصل نہیں۔ چند کو چھوڑ کر بڑی تعداد میں کارخانے مزدوروں کے لیے بے گار کیمپ بنے ہوئے ہیں۔