سعودی عرب میں سب کچھ خراب نہیں

292

یہ مسلمان کی ہی ایجاد تو تھی ۔ اس کا نام الجزائری تھا ۔ شافٹ اکیلے کام نہیں کرتی اس کے لیے پہیہ چاہیے اور دو پہیوں کو شافٹ ملاتی ہے ۔ پہیہ بھی مسلمان کی ایجاد ہے ہم نے سوال کیا کہ طیارہ کس نے بنایا ۔ سب نے رائٹ برادران کا نام لیا ۔ لیکن اس سے سو سال قبل مسلمان احمد ابن فرناس طیارہ اُڑانے کا تجربہ کر چکا تھا ۔ راکٹ سائنس جس چیز کو کہتے ہیں وہ اس کے بھائی غالباً عیاس ناعبداللہ نے تجربہ کر کے ثابت کی تھی اور وہی سائنس آج تک روبہ عمل ہے کہ سمندر کے کنارے سے راکٹ اُڑتا ہے اور ملبہ سمندر میں گرتا ہے ۔ کشتی بھی مسلمان نے بنائی … شیشہ … وہ والا شیشہ نہیں جس کے گیسٹ ہائوس بنے ہوئے ہیں جگہ جگہ چھاپے پڑتے ہیں… بلکہ یہ گزاز ۔ اس کے علاوہ ویکسین مسلمان کی ایجاد ہے ۔ کنگھی مسلمان نے بنائی … ترکی میں مسلمان نے 1724ء میں سرینج کے ذریعے دوا جسم میں منتقل کرنے کا آغاز کیا اس کے 50 سال بعد برطانوی سفیر کی بیوی نے یہ طریقہ برطانیہ میں متعارف کرایا ۔ پن ہول کیمرہ… جس کی بنیاد پر آج کل سارا میڈیا اور ساری جاسوسی اور سیکورٹی چل رہی ہے ۔ ابن الہیشم نے ایجاد کیا تھا۔ آج کل جو جدید طریقہ علاج چل رہا ہے ۔ آپریشن ٹانکے ، بے ہوشی ، کیپسول وغیرہ … یہ سب اور دو سو آلات جراحی الزہراوی نے ایجاد کیے… یہ جو کافی پی پی کر تازہ دم ہو کر مسلمانوں کی ایجاد پر اپنا نام لکھتے ہیں جدید کیمیا کا بانی اپنا آدمی ظاہر کرتے ہیں ،انہوں نے کیا ایجاد کیا ہے۔ کیا ہم ڈاکٹر قدیر کو جدید ایٹم بم کا بانی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کافی خالد یمنی کی ریسرچ تھی ۔ علی بن نقی زریاب نے شیشے کا گلاس بنانے کی ٹیکنالوجی دریافت کی ۔ عباس ابن فرناس نے ہی 634ء میں ہوا سے چلنے والی چکی بنائی اور یہ جو شیمپو لگا کر لوگ بال شفاف کرتے ہیں اس کا موجود 1759ء میں محمد نامی مسلمان ہی تھا۔ جابر بن حیان نے پرفیوم اور منرل واٹر بھی بنایا … یہ تو تھوڑی بہت چیزیں ہیں جو مغرب نے بھی انٹر نیٹ پر ڈال رکھی ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ سے رشتہ توڑ لیا ہے ۔ انجینئرز کو ہم نے دعوت دی کہ تاریخ سے مسلمانوں کی ایجادات کو کھنگالیں اور قوم کو اعتماد دیں… پاکستانی انجینئرز آج بھی دنیا بھر میں اہم منصوبوں پر کام کر رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے ہمارے اس مشورے پر کسی کو برا محسوس ہوا ہو… لیکن انجینئرز فورم کے صدر ڈاکٹر عبدالعلیم ، سیکرٹری اور دیگر احباب نے اس جہت میں سوچنے کی دعوت پر شکریہ ادا کیا اور ہمیں بھی کہا کہ ذرا ان ایجادات پر کچھ تحریر کریں ۔ تو یہ مختصر چیزیں ہی تحریر کر ڈالیں۔
جدہ میں دو تین اہم عشائیے بھی ہوئے … ایک ارسلان ہاشمی کے گھر اور ایک مسرت خلیل کے گھر ۔ ارسلان ہاشمی نے چھے ماہ پرانا گوشت کھلا دیا۔ آپ بھی کہیں گے کہ یہ شکایت کرنے کی کیا تک تھی… لیکن اگر یہ ایک سال پرانا بھی ہوتا تو ہم شوق سے کھاتے… یہ گھوڑے کا گوشت تھا جو ازبکستان سے آنے والے لوگوں سے انہوں نے منگوایا تھا اور دو ماہ قبل ہماری آمد کی اطلاع پا کر اسے محفوظ رکھا ہوا تھا ، کھانے کھا کھا کر کھانوں سے رغبت کم ہو گئی تھی اس لیے شاید ہم اس سے اچھی طرح لطف اندوز نہ ہو سکے ۔ لیکن پوری دعوت عرب طرز کی تھی ۔ پہلے مشروب ، پھر مٹھائیاں اور خشک میوہ جات پھر سعودی قہوہ پھر کھانا… اور آخرمیں پھر سعودی قہوہ… دوسرا عشائیہ مسرت خلیل کے گھر تھا اس کی خاص بات یہ تھی کہ میز بان 35 کلو میٹر دور سے ہمیں لینے آئے اور چھوڑنے بھی آئے ۔ جب ان کے گھر پہنچے تو مسرت خلیل کا کہنا تھا کہ آج آپ کی وجہ سے ہمارے تینوں بیٹے اور دو بہنوئی سب جمع ہوئے ہیں سب پاکستانی ہیں مسرت خلیل کی اہلیہ سعودی ہیں بچے بھی سعودی ہیں۔ پرانے ساتھیوں میں جمیل راٹھور بھی ہیں انہوں نے اپنے گھر میں کھانے کا اہتمام کیا ۔ یہ وہ کھانا تھا جو امیر محمد خان اپنے گھر یا ہوٹل میں کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن جمیل راٹھور نے اپنی بیماری او رگھر والوں کی بیماری کے باوجود اپنے گھر اہتمام کیا یہاں بھی جدہ میں مقیم صحافیوں سے ملاقات رہی مسرت خلیل نے یہاں بھی سوّاک کا فریضہ انجام دیا ۔
(جاری ہے)