پانی کی فروخت

247

Edarti LOHعدالت عظمیٰ کی ہدایت پر قائم واٹر کمیشن نے زیر زمین پانی کی تجارتی بنیادوں پر فروخت پربرہمی کا اظہار کیا ہے اور … کہا ہے کہ اس پانی کی فروخت کس قانون کے تحت کی جا رہی ہے ۔ کیا حکومت کو اس سے آمدنی ہوتی ہے ۔ کمیشن کی جانب سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند کرنے کی بات بھی کی گئی اور یہ ریمارکس دیے گئے کہ کرنا چاہیں تو15روز میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند اور پانی کی چوری روکی جا سکتی ہے ۔ لیکن کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا…یہ عجیب بات ہے مہینوں سے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے پانی کے نمونوں میں زہریلا پانی ، انسانی فضلہ ، فیکٹریوں کے کیمیکل اور درجنوں بیماریوں کے جراثیم ملنے کے ثبوت پیش کیے جا چکے ہیں لیکن صرف سماعتیں ہو رہی ہیں ۔ لوگ ایساپانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہائیڈرنٹس قانونی کون سے ہوتے ہیں ۔ جو پانی لائن کے ذریعے لوگوں کو ملنا چاہیے وہ ہائیڈرینٹس سے ٹینکر میں بھر کر تین سے 10 ہزار روپے تک میں فروخت کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے خیال میں تو ہائیڈرنٹس ہونے ہی نہیں چاہئیں اس چور دروازے کو مستقل بند کر یں واٹربورڈ کو پورے شہر کو پانی کی فراہمی کا پابند ہونا چاہیے ۔اور پانی زیر زمین ہو یا برسرزمین اس کی تجارتی بنیاد پر فروخت کسی صورت جائز نہیں جس طرح سڑکوں کی تعمیر کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لیے سندھ حکومت میدان میں کو دی تھی پانی کی فراہمی کے کارنامے کے لیے بھی تھوڑی زحمت کرلے…سارا وبال واٹر بورڈ کے سر کیوں؟