مہاجرین ترکی میں خوش، یورپ جانا چھوڑ دیا

819

برسلز (انٹرنیشنل ڈیسک) ترکی اور یورپی یونین کے مابین اختلافات کے باوجود مہاجرین کی یورپ کی جانب غیر قانونی ہجرت روکنے کے معاہدے پر عمل جاری ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ترکی میں مہاجرین کو فراہم کردہ سہولیات ہیں۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد یورپی ممالک میں باغیوں کو سیاسی پناہ کی فراہمی، ترک شہریوں کے لیے یورپی یونین میں بغیر ویزا سفر کا معاملہ اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر ترکی اور یورپی یونین کے مابین پچھلے ایک سال میں کئی اختلافات سامنے آئے ہیں، تاہم ان تمام تر اختلافات کے باوجود فریقین کے درمیان مہاجرین کی ترکی کے راستے یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف غیر قانونی ہجرت روکنے سے متعلق معاہدے پر عمل بہ خوبی جاریہے اور مطلوبہ نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔ گزشتہ برس مارچ میں طے پانے والے اس معاہدے پر حال ہی میں جاری ہونے والی یورپی کمیشن کی چھٹی رپورٹ کے مطابق ترکی سے بحیرہ ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں خاطر خواہ کمی نوٹ کی گئی ہے۔ ترکی سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کی ایک اہم وجہ ترکی میں ان تارکین وطن کے لیے موجود سہولیات میں بہتری ہے۔ انقرہ حکومت کے اعداد شمار کے مطابق اس وقت 34 لاکھ پناہ گزین ترکی میں رہایش پزیر ہیں۔ یورپی یونین نے ان مہاجرین کو ترکی میں ہی روکے رکھنے کے لیے 3 ارب یورو بطور امداد دینے ہیں۔ یورپی کمیشن نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس امر کی تصدیق کی کہ 30لاکھ سے زائد شامی، عراقی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی ضروریات پوری کرنا انقرہ حکومت کی ترجیح رہی ہے اور اسی سبب یورپ میں مہاجرین کی آمد گھٹی ہے۔ یورپی کمیشن کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2016ء اور 2017ء کے لیے 3 ارب یورو میں سے اب تک 2.9 ارب یورو مختلف منصوبوں کے لیے مختص کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مالیت کے 47 ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ترکی کو اب تک 81کروڑ 10لاکھ یورو فراہم کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی، زبان سیکھنے کے کورسز اور بچوں کے لیے اسکول جانے کی اجازت اور سہولت میں بہتری آئی ہے۔ یہ تمام چیزیں انسانی بنیادوں پر امداد کے یورپی یونین کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے ’ایمرجنسی سوشل سیفٹی نیٹ‘ کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہیں۔ ادھر سمندری راستوں پر مہاجرین کو تلاش کرنے اور روکنے کے حوالے سے بھی اقدامات بڑھے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں یورپی بارڈر ایجنسی اور کوسٹ گارڈز کے علاوہ ترک کوسٹ گارڈز بھی کافی سرگرم رہے ہیں۔ ساتھ ہی ترکی کی جانب سے قانون سازی کی بدولت انسانوں کے اسمگلروں کو بھی شدید مشکلات درپیش ہیں اور تارکین وطن کو غیر قانونی انداز میں یورپ تک پہنچانے کے لیے اب انہیں کئی کئی مرتبہ کوشش کرنی پڑتی ہے، جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب یورپی کمیشن کی رپورٹ میں کئی چیلنجز کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ یونان میں اب بھی واپس ترکی بھیجے جانے والوں کے مقابلے میں زیادہ مہاجرین کی آمد ہو رہی ہے۔ معاہدے کے تحت عمل شروع ہو جانے کے بعد یونان پہنچنے والے تمام مہاجرین کو واپس ترکی بھیجا جانا تھا۔ اب تک 2 ہزار سے بھی کم مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا گیا ہے۔
مہاجرین/ ترکی