فیصلے کے بعد

200
zc_alamgirAfridiعدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے اتفاق رائے سے پاناما کیس میں وزیر اعظم نواز شریف سمیت ان کے بیٹوں،حسن نواز، حسین نواز، بیٹی مریم نواز، داماد کیپٹن صفدر اور سمدھی اسحاق ڈار کی نااہلی کے سخت ترین فیصلے اوران سب کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کرپشن کے الزامات کے تحت نیب میں چھ ہفتوں کے اندر اندر ریفرنس دائر کرنے اور چھ ماہ کے اندر ان کیسوں کا فیصلہ سنانے کا تاریخی فیصلہ کر کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی ایک نئی رقم کر دی ہے۔ حکومت مخالف سیاسی قوتیں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی اس فیصلے کو تاریخ ساز قرار دے کراس کی تعریف کر رہی ہیں جو کہ نہ صرف فطری ہے بلکہ عین توقع کے مطابق بھی ہے۔ اس فیصلے کے حوالے سے اے این پی اور قومی وطن پارٹی کا موقف شروع سے محتاط اور متوازن رہا ہے جب کہ خود مسلم لیگ(ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں نے جس برد باری اور تحمل سے اس فیصلے کو تسلیم کیا ہے وہ بذات خود ایک مستحسن اقدام ہے اور اس کا کریڈٹ نواز شریف اور حکمران اتحاد کو نہ دینا زیادتی ہوگی۔ یہ بات درست ہے کہ ان کے پاس یہ سخت اور تلخ فیصلہ قبول کرنے کے سوا اور کوئی آپشن تھا بھی نہیں لیکن فیصلے سے پہلے بعض حلقے فیصلہ نواز شریف کے خلاف آنے کی صورت میں عدالت عظمیٰ سے تصادم اور عدالتی فیصلہ نہ ماننے سے متعلق جن خدشات کااظہار کر رہے تھے ان تمام خدشات کو مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت نے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر کے غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے ویسے تو کئی پہلو ہیں اور پاکستان کے حالات پر اس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیاجا سکتا ہے لیکن عدلیہ کے اس تاریخی فیصلے نے جہاں نظریہ ضرورت کے حوالے سے ماضی میں بدنامی کا داغ اپنے دامن پرلگانے کے تاثر کو زائل کر دیاہے وہاں اس فیصلے سے پاکستان کے کروڑوں مایوس عوام کو یہ حوصلہ بھی ملا ہے کہ یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا نہیں ہے اور ہماری معزز عدلیہ میں اتنا دم خم ابھی باقی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی فیصلے کربھی سکتی ہے اور اس میں اپنے فیصلوں کے نفاذ کی طاقت بھی موجود ہے۔ جولوگ اس فیصلے کو سطحی نظر سے دیکھ رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات اور احساسات کا ترجمان ہے۔ وقت کے برسر اقتدار طاقتور ترین اور مالدار ترین اسٹیٹس کو کے علمبردار حکمران کا آزادانہ ٹرائل اور اس کے خلاف آئین اور قانون کی روشنی میں اقتدار سے نااہلی کا فیصلہ آنا اور اس فیصلے کا دیکھتے ہی دیکھتے بغیر کسی حیل وحجت اور مزاحمت کے نافذ ہونا پاکستان کے ایک خوشحال، پائیدار اور محفوظ مستقبل کی نوید ہے۔ اس فیصلے نے بعض حلقوں کے تعصب پر مبنی اس رویے اور پروپیگنڈے کو بھی شکست دے دی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا سندھ اور پنجاب کے لیے انصاف کا الگ الگ پیمانہ ہے۔ اسی طرح اس فیصلے نے اس تاثر کی نفی بھی کر دی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں حکمرانوں اور رعایا نیز امراء اور غرباء کے درمیان فیصلوں کے علیحدہ علیحدہ معیارات ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں پر عوامی اعتماد کی بحالی کی ترجمانی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بجا طور پر کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس تاریخی فیصلے سے پاکستان کے کروڑوں مفلوک الحال اور بے بس وبے کس عوام میں اُمید کی ایک نئی لگن اور لہر پیدا ہو گئی ہے اور یہ سلسلہ اب تھمنا نہیں چاہیے۔ جو لوگ پاناما مقدمے کو میاں نواز
شریف کی نااہلی تک محدود رکھنے کے متمنی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر احتساب کے اس سفر اور شروعات کو صرف اس کیس اور صرف نواز شریف کی نا اہلی تک محدود رکھا گیا تو اس سے نہ صرف اس کیس اور فیصلے کومتنازعہ بننے میں دیر نہیں لگے گی بلکہ اس طرز عمل سے موجودہ سسٹم سے عوام کے اعتماد کا اٹھنا بھی فطری امر قرار پائے گا۔ پاکستان کے کروڑوں عوام بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ برسر اقتدار حکمران خاندان کا بے رحم احتساب وطن عزیز سے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے ضمن میں بارش کا پہلاقطرہ ثابت ہوگا اور اب عدلیہ سیاستدانوں سمیت مادر وطن کو شیرمادر سمجھ کر لوٹنے والے جرنیلوں، ججوں، بیورو کریٹس، تاجروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں اور کرپٹ صحافیوں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے ان کے پیٹوں سے بھی ملک وقوم کا لوٹا ہوا مال برآمد کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لے گی اور اس حوالے سے نظر آنے والے اقدامات اٹھائے گی۔ اگر عدالت عظمیٰ سوموٹو اختیارات کے تحت از خود کوئی ایسا تاریخی اور انقلابی قدم اُٹھاتی ہے تو وہ
یقیناًپوری قوم کو اپنی پشت پرپائے گی کیوں کہ بے رحم احتساب اور گزشتہ 70 سالوں میں لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی پوری قوم کی متفقہ خواہش اور مطالبہ ہے۔ پاناما فیصلے کے متذکرہ پہلو کے ساتھ ساتھ ہمارے تمام متعلقہ اداروں اور سیاسی راہنماؤں کو اس فیصلے کی خوشی اور غم کے شورمیں جہاں وطن عزیز کو درپیش بین الاقوامی سازشوں سے ہوشیار رہنا ہوگا وہاں اپنے اندرونی سیاسی اختلافات کو اس حد تک لے جانے سے گریز کرنا ہوگا جس کا خمیازہ خدا ناخواستہ بعد میں پوری قوم اور ملک کو انتشار اور افراتفری کی صورت برداشت کرنا پڑے۔ نواز شریف کی ناہلی کے فیصلے پر اب تک مسلم لیگ (ن) نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے توقع ہے کہ تحمل اور سیاسی بلوغت کے اس جذبے کو آگے بھی جاری رکھا جائے گا اور حکمران جماعت نئے وزیر اعظم کے انتخاب اور کابینہ کی تشکیل میں صرف اور صرف قومی مفاد کو مقدم رکھے گی۔ اسی طرح اُمیدکی جانی چاہیے کہ اپوزیشن کی جماعتیں بھی عدالتی فیصلے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے اور حکمران جماعت کو دیوار سے لگانے کی بجائے قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک لے جانے سے احتراز کریں گی۔