شریف کی نااہلی تک محدود رکھنے کے متمنی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر احتساب کے اس سفر اور شروعات کو صرف اس کیس اور صرف نواز شریف کی نا اہلی تک محدود رکھا گیا تو اس سے نہ صرف اس کیس اور فیصلے کومتنازعہ بننے میں دیر نہیں لگے گی بلکہ اس طرز عمل سے موجودہ سسٹم سے عوام کے اعتماد کا اٹھنا بھی فطری امر قرار پائے گا۔ پاکستان کے کروڑوں عوام بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ برسر اقتدار حکمران خاندان کا بے رحم احتساب وطن عزیز سے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے ضمن میں بارش کا پہلاقطرہ ثابت ہوگا اور اب عدلیہ سیاستدانوں سمیت مادر وطن کو شیرمادر سمجھ کر لوٹنے والے جرنیلوں، ججوں، بیورو کریٹس، تاجروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں اور کرپٹ صحافیوں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے ان کے پیٹوں سے بھی ملک وقوم کا لوٹا ہوا مال برآمد کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لے گی اور اس حوالے سے نظر آنے والے اقدامات اٹھائے گی۔ اگر عدالت عظمیٰ سوموٹو اختیارات کے تحت از خود کوئی ایسا تاریخی اور انقلابی قدم اُٹھاتی ہے تو وہ
یقیناًپوری قوم کو اپنی پشت پرپائے گی کیوں کہ بے رحم احتساب اور گزشتہ 70 سالوں میں لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی پوری قوم کی متفقہ خواہش اور مطالبہ ہے۔ پاناما فیصلے کے متذکرہ پہلو کے ساتھ ساتھ ہمارے تمام متعلقہ اداروں اور سیاسی راہنماؤں کو اس فیصلے کی خوشی اور غم کے شورمیں جہاں وطن عزیز کو درپیش بین الاقوامی سازشوں سے ہوشیار رہنا ہوگا وہاں اپنے اندرونی سیاسی اختلافات کو اس حد تک لے جانے سے گریز کرنا ہوگا جس کا خمیازہ خدا ناخواستہ بعد میں پوری قوم اور ملک کو انتشار اور افراتفری کی صورت برداشت کرنا پڑے۔ نواز شریف کی ناہلی کے فیصلے پر اب تک مسلم لیگ (ن) نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے توقع ہے کہ تحمل اور سیاسی بلوغت کے اس جذبے کو آگے بھی جاری رکھا جائے گا اور حکمران جماعت نئے وزیر اعظم کے انتخاب اور کابینہ کی تشکیل میں صرف اور صرف قومی مفاد کو مقدم رکھے گی۔ اسی طرح اُمیدکی جانی چاہیے کہ اپوزیشن کی جماعتیں بھی عدالتی فیصلے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے اور حکمران جماعت کو دیوار سے لگانے کی بجائے قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک لے جانے سے احتراز کریں گی۔