پاکستان گزشتہ کئی عشروں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور یہاں کے چھوٹے سے دھماکے کو بھی دنیا بھر میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جار ہا ہے ۔اس کے علاوہ یہاں کرکٹ کی ٹیمیں اس لیے نہیں آتیں کہ پاکستان دہشت گردی کا دشکار ہے ایسے میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز نے کراچی میں آباد انٹر نیشنل ایکسپوکے انعقاد کا فیصلہ کیا اور اس کوعالمی ایکسپو کا درجہ بھی حاصل ہو گیا ۔ اس نمائش کے روح رواں محسن شیخانی کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر سے 5 لاکھ افراد چوتھی آباد ایکسپو میں شرکت کریں گے اور اس ایکسپو میں عالمی کمپنیوں کے ساتھ 500 ارب روپے کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط متوقع ہیں ۔ کسی بھی بڑے منصوبے کے حوالے سے توقعات ضرور باندھی جاتی ہیں اور آباد ایکسپو کے حوالے سے یقیناً اندازے اور تخمینے لگائے گئے ہیں لیکن بقول صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ اصل کامیابی تو مل چکی ۔ اس ایکسپو کی پذیرائی کے نتیجے میں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر ہوا ہے ۔ اصل مسئلہ بھی یہی ہے اگر پاکستان میں ہونے والے کسی پروگرام میں کسی نمائش میں بڑی تعداد میں غیر ملکی سرمایہ کار اور تعمیراتی شعبے کے لوگ دلچسپی لیں اور خودیا اپنی کمپنیوں کو شریک کرائیں تو یہ بھی بڑی کامیابی ہے ۔ اگر 500 ارب روپے کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط نہ بھی ہو سکے تو بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت اس ایکسپو کی کامیابی کے لیے کافی ہے ۔ پاکستانی تاجر برادری کی رائے میں تو ایکسپو اپنے آغاز سے قبل ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی ہے ۔ اس حوالے سے منتظمین اور صوبائی حکومت دونوں ہی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ تاہم دونوں کو آغاز سے اختتام تک شرکاء کے تحفظ ، صفائی ستھرائی اور شہر کے نظام کو درست رکھنے کا فریضہ سر انجام دینا ہو گا ۔ شہر کامطلب صرف ایکسپو سینٹر نہیں ہوتا پورے شہر میں صفائی ، روشنی ، سڑکوں وغیرہ کی درستگی کا اثر باہر سے آنے والے مہمانوں پر پڑتا ہے ان چیزوں کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔