حالاتِ حاضرہ پر کون لکھے؟ ۔۔۔ اب لکھے یہ جوّالی دُنیا! 

499

zc_ZairOZabar’’جوّال کا استعمال بڑھتا جارہاہے‘‘۔
جگت چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی نے آتے ہی گویاایک تازہ ترین خبر ہمارے سر پر دے پھوڑی۔ عرض کیا:
’’مگر لفظ جوّال کا استعمال اتنا نہیں بڑھ رہا ہے ۔۔۔‘‘
چچا کی محفل بھی اُردو شاعری کے محبوب کی سی محفل ہوتی ہے کہ ’بات پر واں زبان کٹتی ہے‘۔ سو، فوراً ہماری بات ۔۔۔ بلکہ ہماری زبان ۔۔۔ کاٹتے ہوئے بولے: ’’بڑھ جائے گا پتر، بڑھ جائے گا۔ جو لوگ امت مسلمہ کے دشمنوں کی زبانوں کے مقابلے میں مسلم دنیا کی زبانوں کو ترجیح دیتے ہیں، وہ جوّال کا استعمال بڑھاتے بڑھاتے لفظ ’جوّال‘ کا استعمال بھی بڑھا دیں گے‘‘۔
اب یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ چچا علم لسانیات پر ایک طویل خطبہ ارشاد فرمائیں گے اور پھر قومی زبان کے استعمال کے فضائل و برکات پر مفصل خطاب فرمائیں گے۔ لہٰذا ہم نے پیش بندی کے طور پر انہیں پسپائی پر مجبور کردیا:
’’کیا کہہ رہے تھے آپ؟ جوّال کا استعمال بڑھتا جارہا ہے؟ ارے چچا جس کے پاس مال ہوگا اُس کے پاس جوّال بھی ہو گا‘‘۔
جھٹ بولے: ’’میاں! جس کے پاس مال نہیں ہے، اُس کے پاس بھی جوال ہے۔ کل ہم گھر میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ ہماری گلی کی صفائی کرنے والی خاتون ’مارگریٹاں‘ ہم سے فدویانہ معروض ہوئی کہ ۔۔۔ ’باباجی! بیس روپے ہوں گے؟‘ ۔۔۔ ہم نے کہا ۔۔۔ ’ہیں تو سہی، یہ لے‘ ۔۔۔ کہنے لگی ۔۔۔ ’نہیں باباجی! نوٹ نہیں چاہیے‘ ۔۔۔ ایک پرچی تھماتے ہوئے بولی ۔۔۔ ’یہ میرا نمبر ہے۔۔۔ اس پر بیس روپے کا بیلنس ڈلوا دے ظالما!‘‘۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا: ’’پھر آپ بیلنس ڈلوانے چلے گئے؟ ۔۔۔ چاچی نے دروازہ کھول کر نہیں جھانکا؟‘‘
بڑی بے اعتنائی سے فرمایا: ’’اُسے تو خود اپنی سہیلیوں سے بصری گفتگو کرتے رہنے سے فرصت نہیں ملتی۔ میاں اب دروازہ کھول کر محلے میں جھانکنے کا دور بھی گیا۔ اب تو وڈیوکال کرو اور یورپ، امریکا، افریقا، مشرقِ بعید، مشرقِ وسطیٰ جہاں چاہو اور جس کے گھر میں چاہو جھانکتے پھرو‘‘۔
’’دیکھیے! سائنس نے کتنی ترقی کر لی ہے!‘‘
ہم نے جان بوجھ کر سائنسی ترقی کا ذکر کیا ۔ نتیجہ حسبِ دل خواہ نکلا۔ چچا بھڑک اُٹھے:
’’سائنس نے تو ترقی کر لی۔ مگر ترقی کی اس بلندی پر پہنچ کر انسان نے ٹکریں مارنی شروع کردی ہیں‘‘۔
’’وہ کس کو چچا؟‘‘
’’ارے میاں پرسوں اچھے بھلے پیادہ رَو پر چلے جارہے تھے کہ ایک اچھا بھلا سلجھا ہوا سمجھ دار آدمی جو اعلیٰ درجے کے فرنگی لباس میں ملبوس تھا سامنے سے آیا اور اُس نے چلتے چلتے بڑے زور سے اپنا سر ہماری ناک سے ٹکرا دیا۔ ہم ابھی ۔۔۔ ’الو کے پٹھے نظر نہیں آتا‘ ۔۔۔ کہنے ہی کو تھے کہ ۔۔۔ ’سوری انکل‘ ۔۔۔ کہہ کر پھر سے اپنے جوال پر منہ جھکائے کسی اگلے بزرگ کو ٹکر مارنے چل پڑا۔ میاں! ہم تو اُسے دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے‘‘۔
ایک بار پھر انہیں بھڑکانے کی کوشش کی:
’’ہمارے ہاں کے لوگ ابھی تک پس ماندہ ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں فٹ پاتھ پر بھی دو رستے بنا دیے گئے ہیں۔ ایک اُن لوگوں کے لیے جو سراُٹھا کر چل سکتے ہیں، دوسرا اُن لوگوں کے لیے جو چلتے ہوئے بھی میسج کرتے جاتے ہیں‘‘۔
ہمارا خیال تھا کہ پھر بھڑک اٹھیں گے۔ مگر بھڑک اُٹھنے کے بجائے یکایک چونک اُٹھے۔ چونک کر کہنے لگے:
’’ارے ہاں میاں! کل ہمارے محلے کے ایک سیاسی کارکن تھڑے پر بیٹھے تمہارا پچھلا کالم پڑھ رہے تھے۔ پتا نہیں چل سکا کہ پڑھ پڑھ کر کڑھ رہے تھے یا کڑھ کڑھ کر پڑھ رہے تھے۔ کہنے لگے۔۔۔ ’پہلے یہ شخص سیاست دانوں کے تازہ بیانوں پر کالم لکھا کرتا تھا۔ کیا جانیے کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو؟ اب کیوں حالاتِ حاضرہ پر فقرے چست نہیں کرتا؟‘ ۔۔۔ یہ سُن کر ہم نے اُس سے کہا کہ یہ تو اپنا برخوردار ہے۔ کل ہی پوچھ کر بتا دیں گے۔ بس ہم آج یہی پوچھنے تو آئے تھے‘‘۔
عرض کیا: ’’اس کا سبب بھی یہی آپ کا جوال ہے۔ سیاست دانوں کے بیانوں پر تبصرے آج کل برقی ذرائع ابلاغ سے بھی پہلے سماجی ذرائع ابلاغ پر آجاتے ہیں اور ’جوّالوں جوّال‘ بڑی تیزی سے کسی وبا کی طرح ملک بھر میں پھیل جاتے ہیں۔ ایک سے ایک دلچسپ اور کالمانہ تبصرے ہوتے ہیں۔ کالم نگار اُن کے آگے کیا بیچتا ہے؟ ابھی شاہد خاقان عباسی کی نامزدگی پر اس خبر کی وبا پھیلی ہوئی ہے کہ خلافتِ عباسیہ کے خاتمے کے آٹھ سو برس بعد کسی ’عباسی‘ کو (ڈیڑھ ماہ کی) تخت نشینی کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ چچا! حالاتِ حاضرہ کا حال یہ ہے کہ موروثی اور خاندانی سیاست کے عشق میں ملک بھر کے عباسیوں میں جشن برپا ہے۔ مگر ڈیڑھ ماہ بعد جب برادرِ بزرگ کی جگہ برادرِ خُرد بطور ولی عہد (وہ بھی صرف چھے ماہ کے لیے) تخت نشین ہو جائیں گے تو کیا اگلی باری اُموی خاندان کی خلافت کی آجائے گی؟ بنو اُمیہ تیار رہے؟
پس اب حالاتِ حاضرہ پر کون لکھے؟ جوالی ذرائع ابلاغ پر اتنی تیزی سے لکھا جا رہا ہے کہ لمحہ بھر میں خبر بھی باسی ہو جاتی ہے اور اُس پر کیا ہوا تبصرہ بھی بُو دینے لگتا ہے۔ اس کے باوجود حالاتِ حاضرہ جوں کے توں ہیں۔چچا! اب تو دلاورفگار کے یہ اشعار بھی باسی تواسی ہو گئے:
حالاتِ حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہو گئے
حالاتِ حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے‘‘