برصغیر میں جو بھی اسلام اور اس کے مختلف مظاہر ہیں، وہ آدھے اسلام کا نتیجہ ہے۔ آدھا اسلام ہمارے آدھے مسلمان ہونے کے باعث ہے۔ اور آدھی مسلمانیت اس تعلیمی نظام کا نتیجہ ہے جس سے ہماری گزشتہ کئی نسلیں گزر چکی ہیں۔
1857 مسلمانوں کی جنگ آزادی کی آخری کوشش تھی۔ اس میں انگریزوں کو نقصان تو ہوا لیکن وہ اسے بری طرح کچل دیا گیا۔ علماء کا قتل عام ہوا، وہ اسیران جیل ہوئے، جلا وطن ہوئے، اور جان بچانے کے لیے ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ قیصر التواریخ از کمال الدین حیدر کے مطابق سات ہزار علماء کو تہ تیغ کر دیا گیا۔
اس کے بعد انگریزوں کی ایک ہی کوشش تھی کہ مسلمانوں کے قائم تعلیمی نظام کا مکمل خاتمہ ہو۔ تعلیمی اوقاف ضبط کر لیے گئے، تمام جائداد مال و خزائن جو تعلیم کے شعبے میں تھے اسے مختلف قوانین کے ذریعے انگریزوں نے ضبط کر لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک بڑے شہر میں قائم ہزاروں مدارس ٹھٹھہ سے کلکتہ تک بند ہوتے چلے گئے اور مسلمانوں کا تعلیمی نظام اور علم کا ذخیرہ مٹی کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔
تعلیمی نظام اور علمی ذخائر کے اس ملبے سے جو دو نظام برآمد ہوئے اس میں ایک علی گڑھ اور دوسرا دیو بند ہے (دوسرے تمام تعلیمی اور مسلکی نظام اسی دو دھاروں سے نکلے ہیں اس لیے وہ علیحدہ زیر بحث نہیں)
سرسید احمد خاں کی انگریزوں سے ہم آہنگی دو نسل پہلے قائم ہو گئی تھی، ان کے نانا ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم تھے، جنگ آزادی میں انگریزوں کے بہت سے جوانوں کی جان بچانے کے باعث وہ انگریزوں کے منظور نظر بن چکے تھے۔ کیمبرج کے طرز پر لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام جو ساؤنلا انگریز بنانے کے لیے تھے، سرسید نے اس کا بیڑا اٹھایا تو انگریز حکومت میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ ملکہ وکٹوریہ کے جشن جوبلی کے روز ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ لٹن صاحب بہادر نے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا افتتاح کیا۔ شروع میں یہ کالج کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک رہا۔ پرنسپل لازماً انگریز ہوتے تھے۔ کالج کا اندرونی نظم و نسق انگلینڈ کے پبلک اسکول رگبی، ایٹن، اور ہیرو (Harrow) کے نمونے پر تھا۔ کالج کا انگریز پرنسپل تدریسی امور میں مکمل آزاد تھا۔ بلکہ وہ سرسید احمد خاں کے ذریعے مسلمانوں کے معاشرتی اور سیاسی امور میں بھی رہنمائی کرتا تھا۔
علی گڑھ تحریک سے علی گڑھ کے طرز پر پورے برصغیر میں جو تعلیمی نظام چلا اور اس نظام نے مسلمانوں میں ایک خاص قسم کا مزاج پیدا کیا۔ وہ مزاج یہ تھا کہ مسلمانوں کی معاشی ترقی کی فکر کرو، انہیں نوکریاں دلانے میں مدد کرو، انگریزی حکومت کے لیے کلرک پیدا کرو۔ بقیہ رہا دوسرے شعبہ حیات تو اس کی طرف سے آنکھ موند کر چلو یا پھر ’’چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘۔ علی گڑھ سے پہلے مسلمانوں کا اجتماعی نظام اور اس کے معاملات قال اللہ (اللہ نے کہا) اور قال رسول اللہ (اللہ کے رسول نے فرمایا) سے شروع ہوتا تھا، اور امام ابو حنیفہؒ ، امام غزالیؒ اور امام ابو قیمؒ وغیرہ کے فرمودات کے گرد گھومتا تھا، اب وہاں ملٹن اور اسپنسر کے فرمودات جاری ہونے لگے۔
علی گڑھ کے تعلیمی نظام کے اس وقت کے سب سے بڑے ناقد اکبر الہٰ آبادی نے اس نظام کی حقیقت کو ایک مصرعے میں سمیٹ دیا تھا۔ اس نظام تعلیم سے انسان کے اندر کے نظام کا کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا ’’دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے‘‘ اور اس کی پروڈکٹ کیسی ہوگی؟ کہا کہ ’’کر کلرکی، کھا ڈبل روٹی اور خوشی سے پھول جا۔‘‘
علی گڑھ نے یہ مزاج پیدا کیا کہ ملت کے غم میں شامل رہو، معاشی جدوجہد کرو، لیکن اپنی معاشی، سیاسی اور سماجی تنظیم میں قرآن اور سنت کے لیے کوئی جگہ نہ ہو بلکہ یہ سیکولر ہو اور انگریزی نظام کے تابع ہو۔
دوسری طرف پرانے نظام کی باقیات کو یہ فکر ہوئی کہ ہمارے اسلاف کا تمام علمی ورثہ ضائع ہو جائے گا اور تسلسل ٹوٹ جائے گا۔ انہوں نے دنیا کی طرف سے آنکھ موند کر صرف دینی تعلیم پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس نقطہ نظر کے سرخیل مولانا عنایت احمد کاکوروی تھے جنہوں نے انڈمان میں برطانوی قید سے رہائی کے بعد (1860) میں کانپور میں سب سے پہلے ایک مدرسہ فیض عام قائم کیا لیکن اس مکتبہ فکر کے مشہور عوامی نمائندہ مولانا قاسم نانوتوی ہیں (وفات 1880) جنہوں نے 30مئی 1867کو دیوبند میں دارالعلوم کا افتتاح کیا۔ مدرستہ دارالعلوم دیوبند اس وقت قائم ہوا جس وقت علما کی بڑی تعداد ہلاک کی جا چکی تھی، اور بڑے پیمانے پر جلا وطنی اور ہجرت پر مجبور کر دیا گیا تھا، اور جوہر قابل کی سخت قلت ہو چکی تھی۔ اس مدرسے کا یہ دین (contribution) ہے کہ مسلمانوں کو ایک حد سے نیچے گرنے سے روک دیا، نماز، تراویح، جنازہ، اور دیگر اسلامی رسوم کے لیے افراد تیار ہوتے رہے اور جنہوں نے مدارس اور مساجد کا جال پھیلائے رکھا۔ اس مدرسے کی معیشت صرف چندے سے چلے گی، اس کے بانی نے وصیت میں لکھ دیا تھا۔
کمزوری یہ تھی کہ قدیم زمانہ سے مسلم معاشرہ میں سیادت اور قیادت اور رہنمائی کا منصب دینی مدارس سے فارغ علما ہی سنبھالتے رہے ہیں اس دور کا نصاب ان کو اس اعلیٰ ذمے داری کو سنبھالنے کے لیے تیار کرتا تھا۔ لیکن اب یہ نیا نصاب جدید دور اور اس کے تقاضوں سے باخبر رہنا ہی نہیں چاہتا۔ دنیا نے نئے نئے بے شمار بت بنا لیے، اور شرک اور جدید جاہلیت کی ہزاروں شکلیں آگئیں، طاغوت نے نہ جانے کتنے بھیس بدل لیے، لیکن ان مدارس سے فارغ علما اس سے بے خبر رہے اور بے خبر ہی رہنا چاہتے ہیں۔ دینی علوم میں بھی اس نصاب میں، علوم تفسیر، حدیث اور فقہ کو بھی وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جیسا کہ اس کا حق تھا۔ اسلام کے تصور حیات کی جامعیت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ فلسفہ اور منطق سے لیس اثبات مسلک خاص پر خاصہ زور دیا جاتاہے۔ اس نظام تعلیم میں سیرت رسول اور سیرت خلفائے راشدین اور تاریخ اسلام بھی جگہ نہ پا سکا۔ سائنس (علم کائنات جس سے انسان اللہ سے قریب ترین ہو جاتا ہے اور جس کی طرف قرآن نے بار بار نشاندہی کی) اور سماجی علوم (تاریخ، جغرافیہ، معاشیات، سیاسیات، نفسیات، اور دیگر علوم)، زبان وقت اور ابلاغیات کا علم جو دعوت دین اور اشاعت دین کے لیے لازمی قرار پاتے ہیں ان کے منصوبے نصاب میں کوئی جگہ نہ پاسکا۔ دیوبندی، بریلوی، سلفی اور دیگر تمام مدارس معمولی رد وبدل کے ساتھ انہیں نصاب کو فالو کرتے ہیں۔ چنانچہ میں ان سب کو ’’دیوبند برانڈ‘‘ کے ہی دائرہ میں رکھتا ہوں۔ یہ برانڈ معاملات زندگی سے دور ہے اور کمزور۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’’علی گڑھ برانڈ‘‘ (دنیاوی تعلیم کی تمام شکلیں پیلے اسکول سے لے کر گرامر اسکول تک، چوکیدار، کلرک سے لے کر سیکرٹری تک بنانے والے تمام نظام تعلیم اور اسکول) نے کاروبار زندگی کو سنبھال لیا۔ اس طبقہ نے ہر شعبہ حیات کو دین سے کاٹ کر رکھ دیا۔
بقول شخصے برصغیر میں ہر سال لاکھوں بچے مدارس (د یو بند برانڈ) سے نکلتے ہیں جو دنیوی علوم میں کورے اور دینی علوم میں بھی کورے ہوتے ہیں، اور لاکھوں بچے سیکولر اور انگریزی نظام تعلیم (علی گڑھ برانڈ) سے نکلتے ہیں جو دینی تعلیم میں کورے اور دنیوی تعلیم میں بھی کورے ہوتے ہیں۔ اول الذکر طبقے کا مزاج مناظرانہ اور ثانی الذکر کا دنیا پرستانہ ہوتا ہے۔ پہلا طبقہ مساجد اور مدارس پر کنٹرول چاہتا ہے اور دوسرا سرکاری نوکری پر۔ دونوں نصف یا چوتھائی مسلمان ہیں۔ اور آدھا مسلمان مکمل تبدیل نہیں لا سکتا۔
پاکستان میں فوجی ہٹاؤ، بھٹو ہٹاؤ اور شریف حکومت ہٹاؤ مہمات چلتی ہیں اور کرپشن کے خلاف تحریکیں چلتی ہیں، لیکن تعلیمی نظام کی تبدیلی کی کوئی تحریک نہیں چلتی۔ تعلیمی نظام کی مشین لاکھوں کرپٹ انسان ہر سال تیار کرتی ہے۔ جو ایک کرپٹ کو ہٹانے کے بعد ایک دوسرے کرپٹ کی حکومت کو یقینی بناتی ہے۔ اور کرپٹ نظام تعلیم کا تعلیم یافتہ گروہ، دین دار اور خدا پرست انسان کو کبھی اقتدار میں آنے نہیں دے گا۔ چنانچہ جمہوریت سے کسی تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں۔
’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاو‘‘ (البقرہ: 208)۔ آدھا مسلمان، اور آدھا اسلام، نہ دین کا نہ دنیا کا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ’’آدھے مسلمان‘‘ کو ’’پورا مسلمان‘‘ بنانے کے لیے ’’پورے نظام تعلیم‘‘ کی ضرورت ہے۔ علی گڑھ برانڈ اور دیوبند برانڈ دونوں کے مخلصین کو مل کر اس نئے نظام تعلیم کو برپا کرنا ہوگا۔ ’’پورا مسلمان‘‘ ہی پوری تبدیلی لا سکتا ہے۔
1857 مسلمانوں کی جنگ آزادی کی آخری کوشش تھی۔ اس میں انگریزوں کو نقصان تو ہوا لیکن وہ اسے بری طرح کچل دیا گیا۔ علماء کا قتل عام ہوا، وہ اسیران جیل ہوئے، جلا وطن ہوئے، اور جان بچانے کے لیے ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ قیصر التواریخ از کمال الدین حیدر کے مطابق سات ہزار علماء کو تہ تیغ کر دیا گیا۔
اس کے بعد انگریزوں کی ایک ہی کوشش تھی کہ مسلمانوں کے قائم تعلیمی نظام کا مکمل خاتمہ ہو۔ تعلیمی اوقاف ضبط کر لیے گئے، تمام جائداد مال و خزائن جو تعلیم کے شعبے میں تھے اسے مختلف قوانین کے ذریعے انگریزوں نے ضبط کر لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک بڑے شہر میں قائم ہزاروں مدارس ٹھٹھہ سے کلکتہ تک بند ہوتے چلے گئے اور مسلمانوں کا تعلیمی نظام اور علم کا ذخیرہ مٹی کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔
تعلیمی نظام اور علمی ذخائر کے اس ملبے سے جو دو نظام برآمد ہوئے اس میں ایک علی گڑھ اور دوسرا دیو بند ہے (دوسرے تمام تعلیمی اور مسلکی نظام اسی دو دھاروں سے نکلے ہیں اس لیے وہ علیحدہ زیر بحث نہیں)
سرسید احمد خاں کی انگریزوں سے ہم آہنگی دو نسل پہلے قائم ہو گئی تھی، ان کے نانا ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم تھے، جنگ آزادی میں انگریزوں کے بہت سے جوانوں کی جان بچانے کے باعث وہ انگریزوں کے منظور نظر بن چکے تھے۔ کیمبرج کے طرز پر لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام جو ساؤنلا انگریز بنانے کے لیے تھے، سرسید نے اس کا بیڑا اٹھایا تو انگریز حکومت میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ ملکہ وکٹوریہ کے جشن جوبلی کے روز ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ لٹن صاحب بہادر نے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا افتتاح کیا۔ شروع میں یہ کالج کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک رہا۔ پرنسپل لازماً انگریز ہوتے تھے۔ کالج کا اندرونی نظم و نسق انگلینڈ کے پبلک اسکول رگبی، ایٹن، اور ہیرو (Harrow) کے نمونے پر تھا۔ کالج کا انگریز پرنسپل تدریسی امور میں مکمل آزاد تھا۔ بلکہ وہ سرسید احمد خاں کے ذریعے مسلمانوں کے معاشرتی اور سیاسی امور میں بھی رہنمائی کرتا تھا۔
علی گڑھ تحریک سے علی گڑھ کے طرز پر پورے برصغیر میں جو تعلیمی نظام چلا اور اس نظام نے مسلمانوں میں ایک خاص قسم کا مزاج پیدا کیا۔ وہ مزاج یہ تھا کہ مسلمانوں کی معاشی ترقی کی فکر کرو، انہیں نوکریاں دلانے میں مدد کرو، انگریزی حکومت کے لیے کلرک پیدا کرو۔ بقیہ رہا دوسرے شعبہ حیات تو اس کی طرف سے آنکھ موند کر چلو یا پھر ’’چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘۔ علی گڑھ سے پہلے مسلمانوں کا اجتماعی نظام اور اس کے معاملات قال اللہ (اللہ نے کہا) اور قال رسول اللہ (اللہ کے رسول نے فرمایا) سے شروع ہوتا تھا، اور امام ابو حنیفہؒ ، امام غزالیؒ اور امام ابو قیمؒ وغیرہ کے فرمودات کے گرد گھومتا تھا، اب وہاں ملٹن اور اسپنسر کے فرمودات جاری ہونے لگے۔
علی گڑھ کے تعلیمی نظام کے اس وقت کے سب سے بڑے ناقد اکبر الہٰ آبادی نے اس نظام کی حقیقت کو ایک مصرعے میں سمیٹ دیا تھا۔ اس نظام تعلیم سے انسان کے اندر کے نظام کا کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا ’’دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے‘‘ اور اس کی پروڈکٹ کیسی ہوگی؟ کہا کہ ’’کر کلرکی، کھا ڈبل روٹی اور خوشی سے پھول جا۔‘‘
علی گڑھ نے یہ مزاج پیدا کیا کہ ملت کے غم میں شامل رہو، معاشی جدوجہد کرو، لیکن اپنی معاشی، سیاسی اور سماجی تنظیم میں قرآن اور سنت کے لیے کوئی جگہ نہ ہو بلکہ یہ سیکولر ہو اور انگریزی نظام کے تابع ہو۔
دوسری طرف پرانے نظام کی باقیات کو یہ فکر ہوئی کہ ہمارے اسلاف کا تمام علمی ورثہ ضائع ہو جائے گا اور تسلسل ٹوٹ جائے گا۔ انہوں نے دنیا کی طرف سے آنکھ موند کر صرف دینی تعلیم پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس نقطہ نظر کے سرخیل مولانا عنایت احمد کاکوروی تھے جنہوں نے انڈمان میں برطانوی قید سے رہائی کے بعد (1860) میں کانپور میں سب سے پہلے ایک مدرسہ فیض عام قائم کیا لیکن اس مکتبہ فکر کے مشہور عوامی نمائندہ مولانا قاسم نانوتوی ہیں (وفات 1880) جنہوں نے 30مئی 1867کو دیوبند میں دارالعلوم کا افتتاح کیا۔ مدرستہ دارالعلوم دیوبند اس وقت قائم ہوا جس وقت علما کی بڑی تعداد ہلاک کی جا چکی تھی، اور بڑے پیمانے پر جلا وطنی اور ہجرت پر مجبور کر دیا گیا تھا، اور جوہر قابل کی سخت قلت ہو چکی تھی۔ اس مدرسے کا یہ دین (contribution) ہے کہ مسلمانوں کو ایک حد سے نیچے گرنے سے روک دیا، نماز، تراویح، جنازہ، اور دیگر اسلامی رسوم کے لیے افراد تیار ہوتے رہے اور جنہوں نے مدارس اور مساجد کا جال پھیلائے رکھا۔ اس مدرسے کی معیشت صرف چندے سے چلے گی، اس کے بانی نے وصیت میں لکھ دیا تھا۔
کمزوری یہ تھی کہ قدیم زمانہ سے مسلم معاشرہ میں سیادت اور قیادت اور رہنمائی کا منصب دینی مدارس سے فارغ علما ہی سنبھالتے رہے ہیں اس دور کا نصاب ان کو اس اعلیٰ ذمے داری کو سنبھالنے کے لیے تیار کرتا تھا۔ لیکن اب یہ نیا نصاب جدید دور اور اس کے تقاضوں سے باخبر رہنا ہی نہیں چاہتا۔ دنیا نے نئے نئے بے شمار بت بنا لیے، اور شرک اور جدید جاہلیت کی ہزاروں شکلیں آگئیں، طاغوت نے نہ جانے کتنے بھیس بدل لیے، لیکن ان مدارس سے فارغ علما اس سے بے خبر رہے اور بے خبر ہی رہنا چاہتے ہیں۔ دینی علوم میں بھی اس نصاب میں، علوم تفسیر، حدیث اور فقہ کو بھی وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جیسا کہ اس کا حق تھا۔ اسلام کے تصور حیات کی جامعیت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ فلسفہ اور منطق سے لیس اثبات مسلک خاص پر خاصہ زور دیا جاتاہے۔ اس نظام تعلیم میں سیرت رسول اور سیرت خلفائے راشدین اور تاریخ اسلام بھی جگہ نہ پا سکا۔ سائنس (علم کائنات جس سے انسان اللہ سے قریب ترین ہو جاتا ہے اور جس کی طرف قرآن نے بار بار نشاندہی کی) اور سماجی علوم (تاریخ، جغرافیہ، معاشیات، سیاسیات، نفسیات، اور دیگر علوم)، زبان وقت اور ابلاغیات کا علم جو دعوت دین اور اشاعت دین کے لیے لازمی قرار پاتے ہیں ان کے منصوبے نصاب میں کوئی جگہ نہ پاسکا۔ دیوبندی، بریلوی، سلفی اور دیگر تمام مدارس معمولی رد وبدل کے ساتھ انہیں نصاب کو فالو کرتے ہیں۔ چنانچہ میں ان سب کو ’’دیوبند برانڈ‘‘ کے ہی دائرہ میں رکھتا ہوں۔ یہ برانڈ معاملات زندگی سے دور ہے اور کمزور۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’’علی گڑھ برانڈ‘‘ (دنیاوی تعلیم کی تمام شکلیں پیلے اسکول سے لے کر گرامر اسکول تک، چوکیدار، کلرک سے لے کر سیکرٹری تک بنانے والے تمام نظام تعلیم اور اسکول) نے کاروبار زندگی کو سنبھال لیا۔ اس طبقہ نے ہر شعبہ حیات کو دین سے کاٹ کر رکھ دیا۔
بقول شخصے برصغیر میں ہر سال لاکھوں بچے مدارس (د یو بند برانڈ) سے نکلتے ہیں جو دنیوی علوم میں کورے اور دینی علوم میں بھی کورے ہوتے ہیں، اور لاکھوں بچے سیکولر اور انگریزی نظام تعلیم (علی گڑھ برانڈ) سے نکلتے ہیں جو دینی تعلیم میں کورے اور دنیوی تعلیم میں بھی کورے ہوتے ہیں۔ اول الذکر طبقے کا مزاج مناظرانہ اور ثانی الذکر کا دنیا پرستانہ ہوتا ہے۔ پہلا طبقہ مساجد اور مدارس پر کنٹرول چاہتا ہے اور دوسرا سرکاری نوکری پر۔ دونوں نصف یا چوتھائی مسلمان ہیں۔ اور آدھا مسلمان مکمل تبدیل نہیں لا سکتا۔
پاکستان میں فوجی ہٹاؤ، بھٹو ہٹاؤ اور شریف حکومت ہٹاؤ مہمات چلتی ہیں اور کرپشن کے خلاف تحریکیں چلتی ہیں، لیکن تعلیمی نظام کی تبدیلی کی کوئی تحریک نہیں چلتی۔ تعلیمی نظام کی مشین لاکھوں کرپٹ انسان ہر سال تیار کرتی ہے۔ جو ایک کرپٹ کو ہٹانے کے بعد ایک دوسرے کرپٹ کی حکومت کو یقینی بناتی ہے۔ اور کرپٹ نظام تعلیم کا تعلیم یافتہ گروہ، دین دار اور خدا پرست انسان کو کبھی اقتدار میں آنے نہیں دے گا۔ چنانچہ جمہوریت سے کسی تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں۔
’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاو‘‘ (البقرہ: 208)۔ آدھا مسلمان، اور آدھا اسلام، نہ دین کا نہ دنیا کا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ’’آدھے مسلمان‘‘ کو ’’پورا مسلمان‘‘ بنانے کے لیے ’’پورے نظام تعلیم‘‘ کی ضرورت ہے۔ علی گڑھ برانڈ اور دیوبند برانڈ دونوں کے مخلصین کو مل کر اس نئے نظام تعلیم کو برپا کرنا ہوگا۔ ’’پورا مسلمان‘‘ ہی پوری تبدیلی لا سکتا ہے۔