وزیراعظم میاں نواز شریف کو امین و صادق نہ ہونے کے باعث عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دے دیا ہے اور اب وہ وزیراعظم نہ رہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بڑی عدالت نے بڑا فیصلہ دیا ہے ایک ایسا فیصلہ جو عوام کی اُمنگوں کا ترجمان ہے۔ ان کی خواہشوں کے عین مطابق ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ عوام کی خواہش تو یہ ہے کہ کرپٹ افراد کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت بھی واپس لی جائے۔ عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر ملک و قوم کی کیا خدمت کی ہے؟۔ حکمران اور وکلا جھوٹ کو اپنا حق قرار دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد کوئی اور نااہل ملک و قوم پر مسلط کردیا جائے گا تو کیا۔ عدالت عظمیٰ اسے بھی نااہل قرار دے کر چلتا کردے گی۔ سوال یہ ہے کہ عدلیہ کب تک ایسا کرتی رہے گی، کیا عدلیہ کا یہ عمل ملک و قوم کے لیے تباہ کن ثابت نہ ہوگا۔ گستاخی معاف! کون نہیں جانتا کہ جج صاحبان مسند انصاف پر براجمان ہو کر 62-63 کی خلاف ورزی کے ہر روز مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ دن میں کئی بار لکھتے ہیں کہ فریقین اور کونسل حاضر۔ اور پھر اگلی پیشی ڈال دیتے ہیں حالاں کہ فریقین اور کونسل کی عدم موجودگی میں کارروائی کی جاتی ہے۔
ہم بارہا انہی کالموں میں یہ گزارش کرچکے ہیں کہ فوج کی نگرانی میں قومی حکومت قائم کی جائے۔ اس ضمن میں ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو نیک نام ہوں اپنے شعبے میں مہارت کے حامل ہوں انہیں تن خواہ اور تن خواہی سے کوئی لگاؤ نہ ہو۔ سرکاری مراعات اور سہولتوں سے بھی کوئی دل چسپی نہ ہو۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ صاف شفاف الیکشن کا انعقاد کیسے ہو؟ فوج کو ایسی ذمے داریاں بھی نبھانا پڑتی ہیں جو اس پر واجب ہی نہیں اور عدلیہ اپنی واجب ذمے داریاں نبھانے سے گریزاں ہے تو پھر الیکشن پر قومی خزانہ کیوں برباد کیا جائے۔ شاید بہتر حل یہی ہے کہ فوج اپنی نگرانی میں قومی حکومت تشکیل دے جو ایسے افراد پر مشتمل ہو جو ملک و قوم سے محبت رکھتے ہوں۔ اگر پانچ سال کے لیے ایسی حکومت قائم کردی جائے تو امین و صادق قیادت کی توقع کی جاسکتی ہے۔
سیاست میں عدم استحکام ہی ساری خرابی کی جڑ ہے۔ دنیا میں کہیں بھی سیاسی جماعتوں کا لنڈا بازار نہیں۔ اطلاعات کے مطابق وطن عزیز میں لگ بھگ تین سو سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور ان کا ووٹ بینک بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ میدان سیاست میں ان کا کیا جواز ہے؟ ایسی جماعتوں کے سربراہ ایک نشست لے کر پریشر گروپ تشکیل دیتے ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔